درپیش اجل ہے گنج شہیداں خریدیے
درپیش اجل ہے گنج شہیداں خریدیے
تربت کے واسطے چمنستاں خریدیے
سودا پکارتا ہے یہ فصل بہار میں
گلشن نہ مول لیجئے زنداں خریدیے
بازار میں یہ کرتی ہیں غل میری بیڑیاں
سوہن ہمارے کاٹنے کو یاں خریدیے
رفت و گزشت بھی ہوا وحشت کا ولولہ
سوزن برائے چاک گریباں خریدیے
لے لیجئے مرا دل صدچاک مفت ہے
شانہ برائے زلف پریشاں خریدیے
بازار مصطفیٰ ہے خریدار ہے خدا
خود بکیے یاں نہ کچھ کسی عنواں خریدیے
جس وقت جا نکلتے ہیں بازار حسن میں
ہمت یہ کہتی ہے کہ پرستاں خریدیے
حلہ کوئی منگائیے جاں دی ہے آپ پر
خلعت ہمارے واسطے اے جاں خریدیے
تربت پہ میری ہوگی تکلف کی روشنی
کافور بہر شمع شبستاں خریدیے
کرتے ہیں شور گنج شہیداں میں گل فروش
چادر برائے گور غریباں خریدیے
وحشت میں مشک کی نہ رسد مفت لیجئے
سودا ہے بوئے کاکل پیچاں خریدیے
ہوتا ہے شوق عشق میں رہ رہ کے ولولہ
مجنوں سے داغ دل سر میداں خریدیے
ہر سو عمل جنوں کے قلمرو میں چاہئے
ڈھنڈوا کے ایک ایک بیاباں خریدیے
ہوتے ہیں جذب عشق سے پریوں کے جمگھٹے
اک ملک مثل ملک سلیماں خریدیے
چورنگ کھیلنے میں حریفوں کے اے شرفؔ
بچئے تو تیغ رستم دستاں خریدیے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |