دعا مانگے دل غمگیں کہاں تک
دعا مانگے دل غمگیں کہاں تک
کہوں میں دم بہ دم آمیں کہاں تک
ترے بیمار کو آتی نہیں موت
پڑھے جائے کوئی یٰسیں کہاں تک
تڑپنے دو ابھی میں بھی تو دیکھوں
وہ دیتے ہیں مجھے تسکیں کہاں تک
خدا اس بت کی باتوں کا ہے مشتاق
گیا شور لب شیریں کہاں تک
مرا منہ تھک گیا شکر جفا سے
کروں میں آفریں تحسیں کہاں تک
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |