دلائل سے خدا تک عقل انسانی نہیں جاتی
دلائل سے خدا تک عقل انسانی نہیں جاتی
وہ اک ایسی حقیقت ہے جو پہچانی نہیں جاتی
اسے تو راہ میں ارباب ہمت چھوڑ دیتے ہیں
کسی کے ساتھ منزل تک تن آسانی نہیں جاتی
کسے ملتی ہیں وہ آنکھیں محبت میں جو روتی ہیں
مبارک ہیں وہ آنسو جن کی ارزانی نہیں جاتی
ابھرتا ہی نہیں دل ڈوب کر بحر محبت میں
جب آ جاتی ہے اس دریا میں طغیانی نہیں جاتی
گدائی میں بھی مجھ پر شان استغنا برستی ہے
مرے سر سے ہوائے تاج سلطانی نہیں جاتی
مقیم دل ہیں وہ ارمان جو پورے نہیں ہوتے
یہ وہ آباد گھر ہے جس کی ویرانی نہیں جاتی
کچھ ایسا پرتو حسن ازل نے کر دیا روشن
قیامت تک تو اب ذروں کی تابانی نہیں جاتی
کچھ ایسے برگزیدہ لوگ بھی ہیں جن کے ہاتھوں سے
چھڑا کر اپنا دامن پاک دامنی نہیں جاتی
ہجوم یاس میں بھی زندگی پر مسکراتا ہوں
مصیبت میں بھی میری خندہ پیشانی نہیں جاتی
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |