دلی کے پوشیدہ ارباب کمال

دلی کے پوشیدہ ارباب کمال
by ناصر نذیر فراق دہلوی
319503دلی کے پوشیدہ ارباب کمالناصر نذیر فراق دہلوی

شاہ بھورے صاحب رحمۃ اللہ علیہ، پریڈ کے میدان میں جہاں حضرت شیخ کلیم اللہ جہان آبادی قدس سرہ العزیز کا مزارِ پُرانوار ہے، ٹھنڈی سڑک سے ادھر بالکل سیدھ میں لال قلعہ کی خندق پر ایک پرانے درخت کے سایہ میں ایک پکی قبر بنی ہوئی ہے۔ قبر کے سرہانے ایک چراغ دان گچ کا ہے، جس میں سرشام عقیدت مند لوگ چراغ جلاتے ہیں۔ جمعرات کو تو یہاں بہت سے مرد اور عورتیں جو جو اولیا اللہ کی چاہنے والی ہیں، دیکھنے آتی ہیں۔ گھی کے چراغ روشن کرتی ہیں، تبرک بٹتا ہے، اورگھنٹہ دو گھنٹہ کے لئے گہما گہمی ہو جاتی ہے۔ نماز پڑھنے والے چھوٹے سے چبوترہ پر جو وہاں بنا ہوا ہے، مغرب کی نماز بھی پڑھ لیتے ہیں۔ جہاں تک چھان بین کی اورجس قدر بزرگوں سے سنا، یہی معلوم ہوا کہ یہ شاہ بھورے صاحب کا مزار ہے۔

شاہ بھورے صاحب اکبر ثانی اور ابو ظفر شاہ دہلی کے عہد میں ایک مجذوب گزرے ہیں۔ اسی جگہ جہاں اب پڑے سو رہے ہیں، دن رات بیٹھے رہتے تھے، اور ایک کمبل سے بدن ڈھانکے رہتے تھے۔ سر کے بال اور ناخن بڑھے ہوئے۔ لانے والے طرح طرح کے کھانے اور مٹھائیاں لاتے تھے، مگر آپ انہیں آنکھ بھر کر بھی نہ دیکھتے۔ جو کسی نے کھلا دیا وہ کھا لیا۔ جو پلا دیا وہ پی لیا۔ اور لے جانے والے وہ ساری نعمتیں اٹھا کر اپنے گھر لے جاتے تھے۔ شاہ صاحب سیف زبان تھے، جو کہہ دیتے تھے وہ ہو جاتا تھا۔ اسی واسطے ہندو مسلمانوں کے ٹھٹھ لگے رہتے تھے۔

جب تک لاکھ سستی نہ ہوئی تھی تو ہماری دلی میں بیاہ شادی کے موقعہ پر عام دعوت کے لئے پیالہ رکابیاں، طشتریاں لاکھی کام میں آیا کرتی تھیں اور عطاروں کے ہاں لاکھی مرتبان، لاکھی کلیاں، لاکھی سکوریاں بھی دوا دینے کے لئے آرام دیتی تھیں۔ اسی قسم کی رکابیوں میں شاہ بھورے صاحب کے لئے لوگ زردہ بریانی لایا کرتے تھے۔ اور جب وہ خالی ہو جاتی تھیں، تو آپ ان رکابیوں کو اوپر تلے رکھا کرتے تھے اور چن چن کر ان کا منارہ بنایا کرتے تھے۔ پھر ان پر زور سے ہاتھ مارتے تھے اور فرماتے تھے، وہ لال قلعہ ہم نے ڈھا دیا، وہ گر گیا، وہ الٹ گیا اور یہ شغل روز جاری رہتا تھا، جو لوگ حاضر ہوتے تھے وہ لال قلعہ کے ڈھنے کا فقرہ سن کر تھرا جاتے تھے اور اپنے دل میں کہتے الٰہی خیر کرنا، لال قلعہ کے لئے شاہ صاحب کے منہ سے بری فال نکلتی ہے۔

حکیم آغا جان صاحب عیش جو چیلو ں کے کوچہ میں کلاں محل کے پاس رہتے تھے، شاہ بھورے صاحب کے بڑے معتقد تھے۔ یہ وہی حکیم آغا جان عیش ہیں، جن کا حال حضرت استاذی شمس العلما مولانا محمد حسین آزاد دہلوی نے اپنی کتاب آب حیات میں تحریر فرمایا ہے۔ اگرچہ استاد نے حکیم صاحب کے اشعار آب حیات میں جو قابل انتخاب ہیں نہیں فرمائے، مگر فی الواقعی حکیم صاحب اردو شاعری میں ذوق، مومن، غالب سے کسی طرح کم نہ تھے۔ ان کے پوتے مرزا ولی بیگ کے حوالہ سے عرض کرتا ہوں کہ حکیم صاحب بڑے پُر گو شاعر تھے اورآپ نے بارہ دیوان بہت موٹے موٹے ردیف وار مرتب کئے تھے اور وہ اب تک ان کی ذریات کے پاس موجود تھے۔ مگر آپ اپنی شہرت نہیں چاہتے تھے، اس لئے آپ نے اپنے صاحب زادے کو وصیت کی تھی کہ میرا کلام کسی کو نہ دکھانا نہ چھپوانا۔ ورنہ میں قیامت میں دامن گیر ہوں گا۔ اچھا دو ایک شعر عیش صاحب کے فقیر فراق کو بھی یاد ہیں۔ اس کتاب کے مطالعہ کرنے والے سن لیں کیونکہ اب اٹھتی پینٹھ ہے۔ کارواں چلنے کے لئے تیار ہے۔ جرس بج رہا ہے۔ بہت سے ساتھی فراق کے اگلے قافلہ میں روانہ ہوچکے ہیں اور فقیر بھی کمر باندھ چکا ہے۔ حکیم صاحب فرماتے ہیں،

اپنے چاہے سے کچھ نہیں ہوتا
وہی ہوتا ہے جو خدا چاہے

زاہد و رند پر نہیں موقوف
وہ سہاگن ہے جسے پیا چاہے

عیش صاحب کو فقیر فراق نے بھی بچپن میں دیکھا ہے۔ آپ کا مطب ہمارے مکان سے بہت قریب تھا اور اس خطہ کے لئے آپ مسیحا تھے۔ مجھے یاد ہے کہ آپ کے مطب میں سیکڑوں آدمی حاضر ہوتے تھے۔ خیر حکیم صاحب کو جب فرصت ملتی شاہ بھورے صاحب کی خدمت میں پہنچتے اور گھنٹوں آپ کے سامنے بیٹھتے۔ شاہ بھورے صاحب ہر وقت خواجہ حافظ شیراز رحمۃ اللہ علیہ کا یہ شعر پڑھا کرتے۔

ہرگز نمیرد آنکہ دلش زندہ شد بہ عشق
ثبت ست بر جریدۂ عالم دوام ما

حکیم صاحب فرماتے ہیں مجھے یاد نہیں کہ میں شاہ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں اور شاہ صاحب نے میرے سامنے دس بیس دفعہ یہ شعر نہ پڑھا ہو۔ یہاں تک کہ شاہ صاحب کا وقت رحلت آ گیا۔ ایک دن لوگوں نے جاکر دیکھا کہ شاہ صاحب کا قالب پاک کمبل میں لپٹا پڑا ہے۔ اور روح فردوس اعلیٰ کو سدھار گئی ہے۔ خبردار نے حضرت بادشاہ ابو ظفر کو خبر دی کہ آج رات کو کمبل پوش فقیر جو مدت سے حضرت کے لال قلعہ کی کھائی پر دھونی رمائے بیٹھا تھا، فوت ہو گیا۔ اس کے لئے کیا حکم ہے۔ بادشاہ سلامت نے فرمایا، جہاں اس فقیر نے دم دیا ہے، اسے اسی مقام پر نہلا دھلاکر جنازہ کی نماز پڑھواکر بہت احترام سے دفن کر دو۔ چنانچہ اسی جگہ جہاں آپ کی قبر ہے، گاڑ دیے گئے۔

حکیم آغا جان صاحب عیش جس طرح شاہ صاحب کی زندگی میں آپ کے پاس آیا کرتے تھے، اسی طرح ان کی وفات کے بعدان کے مقر پر حاضری دینے لگے۔ آندھی آئے، مینہ آئے، کچھ ہو مگر حکیم صاحب کا پھیرا ناغہ نہ ہوتا تھا۔ یہاں تک کہ غدر ۱۸۵۷ نے مغلیہ سلطنت کے تخت کو تخت تابوت سے بدل ڈالا۔ دلّی تباہ ہو گئی، اور حکیم صاحب کو شاہ بھورے صاحب کا کہنا یاد آیا کہ وہ لال قلعہ گرا دیا۔ وہ ڈھا دیا۔ اور اب حاکم وقت نے جا بجا توڑ پھوڑ شروع کی۔ اردو بازار خاص بازار، خانم کا بازار، بلاقی بیگم کا کوچہ، بگوہ باڑی، کاغذی محلہ، زنگاری پردہ، نواب عالیہ بیگم کا محل۔ کیشورائے ہرکارہ کی حویلی اورخدا جانے کیا کیا مسمار ہو گئے۔

ایک دن صبح کے وقت حکیم صاحب شاہ بھورے صاحب کے مزار پر فاتحہ پڑھ رہے تھے، جو انہو ں نے دیکھا کہ ایک یورپین افسر گھوڑے پر سوار بڑی تمکنت سے چلا آتا ہے اوراس کی جلو میں بہت سے نوکر اور بیلدار اورمزدور ہیں۔ اس نے شاہ بھورے صاحب کے مزار پر آ کر اپنے گھوڑے کی باگ روک لی، اوراپنے ایک ماتحت سے کہا یہ قبر یہاں مناسب نہیں معلوم ہوتی۔ میں حکم دیتا ہوں کہ کل صبح اسے توڑ پھوڑ کر پھینک دیا جائے اور جگہ صاف کر دی جائے۔ ماتحت نے کہا بہت خوب کل ایسا ہی کیا جائےگا۔ یورپین افسر آگے بڑھ گیا اوراس کا عملہ بھی اس کے پیچھے گیا۔ حکیم صاحب کے دل پر اس حکم کی چوٹ لگی۔ مگر سوائے اس کے اور کیا کر سکتے تھے کہ انہوں نے سید بھورے صاحب کے مزار پر ہاتھ رکھ کر کہا، واہ شاہ صاحب واہ! بس دیکھ لیا، آپ کا جذبہ، آپ جو اپنی زندگی میں فرمایا کرتے تھے،

ہرگز نمیرد آنکہ دلش زندہ شد بہ عشق
ثبت ست بر جریدۂ عالم دوام ما

بالکل فضول تھا۔ اگر عاشقوں کے نام دوام کاپٹہ لکھا جاتا تو آپ کی قبر نہ کھدوائی جاتی۔ اب کل جو میں آؤں گا تو آپ کی ہڈی پسلی کا نام و نشان بھی یہاں نہ ملے گا۔ اتنا کہہ کر حکیم صاحب گھر چلے آئے اور اس قلق میں رات بھر نیند نہ آئی۔ صبح کی نماز پڑھ کر شاہ صاحب کے مزار پر جا بیٹھے تاکہ اپنی آنکھوں کے سامنے روز محشر کا تماشہ دیکھیں۔ کدال پر کدال پڑ رہی ہو اور اینٹ سے اینٹ بج رہی ہو۔

طلوع آفتاب کے بعد وہی یوروپین افسر گھوڑے سوار تشریف لے آئے، اور آج بھی ان کے ہمراہ بہت سے آدمی تھے۔ صاحب نے گھوڑا روک کر اپنے ماتحت سے کہا، کل میں نے اس قبر کے کھود ڈالنے کا حکم دیا تھا، مگرآج میں اپنے اس حکم کو منسوخ کرتا ہوں۔ اس قبر کے رہنے سے ہمارا کوئی ہرج نہیں ہے۔ اسے نہ چھیڑا جائے۔ یہ فرماکر صاحب لمبے ہوئے اور انگریز بہادر کی یہ بات سن کرحکیم صاحب کو پسینہ آ گیا۔ حکیم صاحب نے شاہ صاحب کے مزار پربہت گداز دل سے فاتحہ پڑھ کر کہا، شاہ صاحب آپ کا شعر پڑھنا بالکل بجا تھا۔ بے شک آپ حضرت فانی باللہ اور باقی باللہ ہو گئے ہیں۔ جینے مرنے سے آپ لوگوں کو کوئی جوکھوں نہیں ہے۔ اور قرآن میں آپ لوگوں کی نسبت آیا ہے، الاَّ اِنَّ اَوْلِیَاءَ اللہُ لاَ خوفٌ عَلَیْہِمْ وَلاَ ھُمْ یَحْزَنُونَ۔ بالکل صحیح ہے۔ اس سے زیادہ حالات سید بھورے صاحب کے اور آپ کی صحیح تاریخ وفات ٹھیک ٹھیک نہ ملی۔

میرزا محمد امیر الملک عرف میرزا بلاقی صاحب گورگانی بادشاہ زادہ جو ابو ظفر بادشاہ دہلی کے بھانجہ ہوتے ہیں اور غدر سے پہلے کی یادگار ہیں اور سرکار نظام آصف جاہ اور سرکار برطانیہ سے وظیفہ پاتے ہیں، ان سے بھی میں نے بھورے شاہ صاحب کی نسبت پوچھا گچھا، تو آپ نے فرمایا، مجھے اور تو کوئی بات معلوم نہیں، مگر اتنا جانتا ہوں کہ میں کئی بار نظر باز لوگوں کو لے کر ان کے مزار پر گیا ہوں۔ اور میں نے اور ان حضرات نے بیٹھ کر مراقبہ کیا ہے تو یہ دریافت ہوا کہ آپ درحقیقت مجذوب نہیں تھے بلکہ سالک تھے اور مقامات عالیہ باطنیہ پر آپ کا تصرف ہے اور اپنے فیض کو طالب کے قلب پر برسا دیتے ہیں اور میں نے بھی آپ کے مزار سے بہت برکات حاصل کی ہیں، مگر میں نے سید بھورے صاحب کو زندگی میں نہیں دیکھا۔ میرے ہوش سے پہلے شاہ صاحب رحلت کر چکے تھے۔ ہمارا مکان بگوہ باڑی میں سنہری مسجد کے پاس جو لال قلعہ کے نیچے اب تک کھڑی ہے، غدر سے پہلے قائم تھا اور اسی مقام پر میری ولادت ہوئی ہے۔


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.