دل بر سے ہم اپنے جب ملیں گے
دل بر سے ہم اپنے جب ملیں گے
اس گم شدہ دل سے تب ملیں گے
یہ کس کو خبر ہے اب کے بچھڑے
کیا جانیے اس سے کب ملیں گے
جان و دل و ہوش و صبر و طاقت
اک ملنے سے اس کے سب ملیں گے
دنیا ہے سنبھل کے دل لگانا
یاں لوگ عجب عجب ملیں گے
ظاہر میں تو ڈھب نہیں ہے کوئی
ہم یار سے کس سبب ملیں گے
ہوگا کبھی وہ بھی دور جو ہم
دل دار سے روز و شب ملیں گے
آرام حسنؔ تبھی تو ہوگا
اس لب سے جب اپنے لب ملیں گے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |