دل بچھڑ کر جو چلا اس بت مغرور تلک
دل بچھڑ کر جو چلا اس بت مغرور تلک
دیکھتا میں بھی گیا اس کے تئیں دور تلک
جان جاوے کہ نہ جاوے رہے سر یا نہ رہے
چھوڑنے کے نہیں ہم تجھ کو تو مقدور تلک
اب نہیں وقت تغافل کا سن اے یار عزیز
پہنچیو جلد ذرا اس دل رنجور تلک
ہم بھی تب تک ہیں کہ یاں جلوہ ہے جب تک تیرا
ہستیٔ سایہ بھی سچ پوچھو تو ہے نور تلک
زخم دل عشق کے گھر کا تو در دولت ہے
بھیج مرہم کو نہ ہمدم مرے ناسور تلک
قاصد و نامہ و پیغام کی مت کہہ کہ صبا
اب تو واں سے نہیں آتی دل مہجور تلک
مر گئے دن ہی کو ہم ہجر میں صد شکر حسنؔ
کام پہنچا نہ ہمارا شب دیجور تلک
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |