دل بچھڑ کر جو چلا اس بت مغرور تلک

دل بچھڑ کر جو چلا اس بت مغرور تلک
by میر حسن دہلوی
316558دل بچھڑ کر جو چلا اس بت مغرور تلکمیر حسن دہلوی

دل بچھڑ کر جو چلا اس بت مغرور تلک
دیکھتا میں بھی گیا اس کے تئیں دور تلک

جان جاوے کہ نہ جاوے رہے سر یا نہ رہے
چھوڑنے کے نہیں ہم تجھ کو تو مقدور تلک

اب نہیں وقت تغافل کا سن اے یار عزیز
پہنچیو جلد ذرا اس دل رنجور تلک

ہم بھی تب تک ہیں کہ یاں جلوہ ہے جب تک تیرا
ہستیٔ سایہ بھی سچ پوچھو تو ہے نور تلک

زخم دل عشق کے گھر کا تو در دولت ہے
بھیج مرہم کو نہ ہمدم مرے ناسور تلک

قاصد و نامہ و پیغام کی مت کہہ کہ صبا
اب تو واں سے نہیں آتی دل مہجور تلک

مر گئے دن ہی کو ہم ہجر میں صد شکر حسنؔ
کام پہنچا نہ ہمارا شب دیجور تلک


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.