دل بے تاب مرا وہ نہ پھنسانے پائے

دل بے تاب مرا وہ نہ پھنسانے پائے
by داغ دہلوی

دل بے تاب مرا وہ نہ پھنسانے پائے
دو ہی جھٹکے جو ذرا زلف دوتا نے پائے

ہاتھ پائی ہوئی میخانے میں زاہد سے کہیں
ہم نے تسبیح کے بکھرے ہوئے دانے پائے

چھیڑ منظور نہ ہو تجھ کو تو مژگاں تیری
دل بے تاب کو انگلی نہ لگانے پائے

جل گیا کیا مری آتش قدمی سے جنگل
چار تنکے نہ کہیں باد صبا نے پائے

ہم نے اپنا دل گم گشتہ نہ پایہ کھو کر
ورنہ یاں ڈھونڈھنے والوں نے خزانے پائے

لا شب وعدہ اسے کھینچ کے اے جذبہ دل
حیلہ جو پاؤں میں منہدی نہ لگانے پائے

حور کے واسطے زاہد نے عبادت کی ہے
سیر تو جب ہے کہ جنت میں نہ جانے پائے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse