دل حسیں ہے تو محبت بھی حسیں پیدا کر

دل حسیں ہے تو محبت بھی حسیں پیدا کر
by جگر مراد آبادی

پہلے تو حسن عمل حسن یقیں پیدا کر
پھر اسی خاک سے فردوس بریں پیدا کر

یہی دنیا کہ جو بت خانہ بنی جاتی ہے
اسی بت خانے سے کعبے کی زمیں پیدا کر

روح آدم نگراں کب سے ہے تیری جانب
اٹھ اور اک جنت جاوید یہیں پیدا کر

خس و خاشاک توہم کو جلا کر رکھ دے
یعنی آتش کدۂ سوز یقیں پیدا کر

غم میسر ہے تو اس کو غم کونین بنا
دل حسیں ہے تو محبت بھی حسیں پیدا کر

آسماں مرکز تخئیل و تصور کب تک
آسماں جس سے خجل ہو وہ زمیں پیدا کر

دل کے ہر قطرہ میں طوفان تجلی بھر دے
بطن ہر ذرہ سے اک مہر مبیں پیدا کر

بندگی یوں تو ہے انسان کی فطرت لیکن
ناز جس پہ کریں سجدے وہ جبیں پیدا کر

پستئ خاک پہ کب تک تری بے بال و پری
پھر مقام اپنا سر عرش بریں پیدا کر

عشق ہی زندہ و پایندہ حقیقت ہے جگرؔ
عشق کو عام بنا ذوق یقیں پیدا کر

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse