دل خدا جانے کس کے پاس رہا
دل خدا جانے کس کے پاس رہا
ان دنوں جی بہت اداس رہا
کیا مزا وصل میں ملا اس کے
میں رہا بھی تو بے حواس رہا
یوں کھلا اپنا یہ گل امید
کہ سدا دل یہ داغ یاس رہا
شاد ہوں میں کہ دیکھ میرا حال
غیر کرنے سے التماس رہا
جب تلک کہ جیا حسنؔ تب تک
غم مرے دل پہ بے قیاس رہا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |