دل دار کی کشش نے اینچا ہے من ہمارا
دل دار کی کشش نے اینچا ہے من ہمارا
ہے خاک اس قدم کی شاید وطن ہمارا
اے دوستان جانی دل سیں کرو توجہ
تا جان پاس اپنے پہنچے بدن ہمارا
گر زندگی ہے باقی پھر تم سیں آ ملیں گے
دیدار آخری ہے جو ہے مرن ہمارا
دریائے مدعا کا لائے ہیں تھاہ جب سیں
ہر بوند اشک کا ہے در عدن ہمارا
درکار نہیں ہے پہریں بر میں قبائے زینت
یہ بس ہے خاکساری خاکی برن ہمارا
سب چھوڑ خانما کوں ہیں اس کی جستجو میں
ہے دشت اور بیاباں باغ و چمن ہمارا
مانند کوہ کن ہے بے کل سراجؔ کا دل
شاید کہ مان لیوے شیریں سخن ہمارا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |