دل دے رہا تھا جو اسے بے دل بنا دیا

دل دے رہا تھا جو اسے بے دل بنا دیا
by آرزو لکھنوی

دل دے رہا تھا جو اسے بے دل بنا دیا
آسان کام آپ نے مشکل بنا دیا

ہر سانس ایک شعلہ ہے ہر شعلہ ایک برق
کیا تو نے مجھ کو اے تپش دل بنا دیا

اس حسن ظن پہ ہم سفروں کے ہوں پا بہ گل
مجھ بے خبر کو رہبر منزل بنا دیا

اندھا ہے شوق پھر نظر امکان پر ہو کیوں
کام اپنا دل نے آپ ہی مشکل بنا دیا

دوڑا لہو رگوں میں بندھی زندگی کی آس
یہ بھی برا نہیں ہے جو بسمل بنا دیا

غرق و عبور دونوں کا حاصل ہے ختم کار
مجبوریوں نے موج کو ساحل بنا دیا

اس شان عاجزی کے فدا جس نے آرزوؔ
ہر ناز ہر غرور کے قابل بنا دیا

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse