دل سرد ہو گیا ہے طبیعت بجھی ہوئی
دل سرد ہو گیا ہے طبیعت بجھی ہوئی
اب کیا ہے وہ اتر گئی ندی چڑھی ہوئی
تم جان دے کے لیتے ہو یہ بھی نئی ہوئی
لیتے نہیں سخی تو کوئی چیز دی ہوئی
اس ٹوٹے پھوٹے دل کو نہ چھیڑو پرے ہٹو
کیا کر رہے ہو آگ ہے اس میں دبی ہوئی
لو ہم بتائیں غنچہ و گل میں ہے فرق کیا
اک بات ہے کہی ہوئی اک بے کہی ہوئی
خوں ریز جس قدر ہیں وہ رہتے ہیں سرنگوں
خنجر ہوا کٹار ہوئی یا چھری ہوئی
شاعرؔ خدا کے واسطے توبہ کا کیا قصور
ہے کس کے منہ سے پھر یہ صبوحی لگی ہوئی
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |