دل مکدر ہے آئینہ رو کا

دل مکدر ہے آئینہ رو کا
by آرزو لکھنوی

دل مکدر ہے آئینہ رو کا
نہ ملا رنگ سے پتا بو کا

ہے دم صبح وہ خماریں آنکھ
ایک ٹوٹا طلسم جادو کا

کم جو ٹھہرے جفا سے میری وفا
تو یہ پاسنگ ہے ترازو کا

دل کی بے چینیاں خدا کی پناہ
تکیہ ہٹ ہٹ گیا ہے پہلو کا

کہیں جاتی بہار رکتی ہے
دامن آیا نہ ہاتھ میں بو کا

ہے نئی قید اب یہ آزادی
زور ٹوٹا ہوا ہے بازو کا

آندھی آہوں کی سیل اشکوں کی
اب نہیں کوئی اپنے قابو کا

قہقہہ بھرتی ہے صراحی کیا
ظرف خم سے سوا ہے چلو کا

سوتی قسمت کی نیند اڑاوے گا
نرم تکیہ کسی کے زانو کا

عشق بازی ہے جان کی جوکھم
وہیں مارا پڑا جہاں چوکا

آرزوؔ دل ہے وقف بیم و امید
جھلملاتا چراغ جگنو کا

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse