دل میں چمکے ہوئے ہیں داغ بہت

دل میں چمکے ہوئے ہیں داغ بہت  (1895) 
by رنج حیدرآبادی

دل میں چمکے ہوئے ہیں داغ بہت
روشن اس گھر میں ہیں چراغ بہت

میں نہ روؤں تو کیا کروں ساقی
بھر کے دیتا نہیں ایاغ بہت

شب کو وعدہ ہے ان کے آنے کا
کیوں نہ روشن کروں چراغ بہت

دل ویراں کو دیکھ کر بولے
گاؤں ہوتے ہیں بے چراغ بہت

غیر کو سر چڑھائیں وہ توبہ
صدقے کر ڈالے ایسے زن بہت

دل پر داغ ہی کی سیر کرو
ہے تمہارے لئے یہ باغ بہت

مجھ سے ملتے ہیں جب یہ کہتے ہیں
آپ کو ہو گیا دماغ بہت

غم سے پائی نجات مرقد میں
مر کے حاصل ہوا فراغ بہت

نقش پا تک ملا نہ ان کا کہیں
چھان مارا ہے کوہ و راغ بہت

کچھ تو فرمائیے جناب رنجؔ
آج ہیں آپ باغ باغ بہت

This work was published before January 1, 1929 and is anonymous or pseudonymous due to unknown authorship. It is in the public domain in the United States as well as countries and areas where the copyright terms of anonymous or pseudonymous works are 100 years or less since publication.

Public domainPublic domainfalsefalse