دل میں کیا کیا ہوس دید بڑھائی نہ گئی
دل میں کیا کیا ہوس دید بڑھائی نہ گئی
روبرو ان کے مگر آنکھ اٹھائی نہ گئی
ہم رضا شیوہ ہیں تاویل ستم خود کر لیں
کیا ہوا ان سے اگر بات بنائی نہ گئی
یہ بھی آداب محبت نے گوارا نہ کیا
ان کی تصویر بھی آنکھوں سے لگائی نہ گئی
آہ وہ آنکھ جو ہر سمت رہی صاعقہ پاش
وہ جو مجھ سے کسی عنوان ملائی نہ گئی
ہم سے پوچھا نہ گیا نام و نشاں بھی ان کا
جستجو کی کوئی تمہید اٹھائی نہ گئی
دل کو تھا حوصلۂ عرض تمنا سو انہیں
سرگزشت شب ہجراں بھی سنائی نہ گئی
غم دوری نے کشاکش تو بہت کی لیکن
یاد ان کی دل حسرتؔ سے بھلائی نہ گئی
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |