دل میں ہر چند ہے خیال اس کا

دل میں ہر چند ہے خیال اس کا
by جوشش عظیم آبادی

دل میں ہر چند ہے خیال اس کا
نظر آتا نہیں جمال اس کا

وہ جو تھی بے خودی سو ہے موجود
ہجر سے کم نہیں وصال اس کا

ہو چکا ہے جگر پسند مژہ
دل کو مانگے ہے خط و خال اس کا

شیخ اگر سامنے ہو مستوں کے
نظر آ جائے سب کمال اس کا

ہم پڑے اک زوال میں ؔجوشش
دیکھ کر حسن بے زوال اس کا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse