دل میں یاد بت بے پیر لیے بیٹھا ہوں

دل میں یاد بت بے پیر لیے بیٹھا ہوں
by آرزو لکھنوی
318287دل میں یاد بت بے پیر لیے بیٹھا ہوںآرزو لکھنوی

دل میں یاد بت بے پیر لیے بیٹھا ہوں
یعنی اک ظلم کی تصویر لیے بیٹھا ہوں

آہ میں درد کی تاثیر لیے بیٹھا ہوں
دل میں اک خون بھرا تیر لیے بیٹھا ہوں

اک ذرا سی خلش درد جگر پر یہ گھمنڈ
جیسے کل عشق کی جاگیر لیے بیٹھا ہوں

ہے مجھے ساز طرب سوختہ سامانی دل
پردۂ خاک میں اکسیر لیے بیٹھا ہوں

چور شیشے پہ نظر پڑتے ہی دل یاد آیا
مٹنے والے تری تصویر لیے بیٹھا ہوں

قید کو توڑ کے سمجھا کہ سہارا توڑا
ہاتھ میں پاؤں کی زنجیر لیے بیٹھا ہوں

آرزوؔ ہو چکی سو مرتبہ دنیا بیدار
اور میں سوئی ہوئی تقدیر لیے بیٹھا ہوں


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.