دل میں یاد بت بے پیر لیے بیٹھا ہوں

دل میں یاد بت بے پیر لیے بیٹھا ہوں
by آرزو لکھنوی

دل میں یاد بت بے پیر لیے بیٹھا ہوں
یعنی اک ظلم کی تصویر لیے بیٹھا ہوں

آہ میں درد کی تاثیر لیے بیٹھا ہوں
دل میں اک خون بھرا تیر لیے بیٹھا ہوں

اک ذرا سی خلش درد جگر پر یہ گھمنڈ
جیسے کل عشق کی جاگیر لیے بیٹھا ہوں

ہے مجھے ساز طرب سوختہ سامانی دل
پردۂ خاک میں اکسیر لیے بیٹھا ہوں

چور شیشے پہ نظر پڑتے ہی دل یاد آیا
مٹنے والے تری تصویر لیے بیٹھا ہوں

قید کو توڑ کے سمجھا کہ سہارا توڑا
ہاتھ میں پاؤں کی زنجیر لیے بیٹھا ہوں

آرزوؔ ہو چکی سو مرتبہ دنیا بیدار
اور میں سوئی ہوئی تقدیر لیے بیٹھا ہوں

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse