دل ناداں مرا ہے بے تقصیر
دل ناداں مرا ہے بے تقصیر
ذبح کرتے ہو اوس کوں بے تکبیر
نقش دیوار صحن گلشن ہے
جس نے دیکھا ہے یار کی تصویر
عاشقوں کوں نہیں ہے رسوائی
مصحف عشق کی ہے یہ تفسیر
گردش چشم یار بے جا نہیں
دل کے لینے کی ہے اسے تدبیر
بو الہوس کب تلک رہے آزاد
کھول صیاد زلف کی زنجیر
جانتی ہے وو زلف عقدہ کشا
میرے آشفتہ خواب کی تعبیر
شب ہجراں میں اے سراجؔ مجھے
اشک ہے شمع اور پلک گلگیر
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |