دل نہیں ملنے کا پھر میرا ستم گر ٹوٹ کر
دل نہیں ملنے کا پھر میرا ستم گر ٹوٹ کر
چیز یہ ایسی نہیں جڑ جائے گی جو پھوٹ کر
آج ہے دل میں مرے کل ہے عدو کی آنکھ میں
تجھ میں بھر دی ہے یہ ایسی کس نے شوخی کوٹ کر
اپنے بیگانوں کی نظریں پڑ رہی ہیں آپ پر
واہ کیا نام خدا نکلی جوانی پھوٹ کر
اس کا دشمن سے تعلق اس کا دشمن سے ملاپ
سن رہا ہوں آج کل جو کچھ الٰہی چھوٹ کر
اب کہاں نظارۂ گل اب کہاں لطف چمن
ایک آفت میں پڑے ہیں ہم قفس سے چھوٹ کر
بے خبر سوتا ہے کوئی سیج پر آرام سے
ہچکیاں لے لے کے کوئی رو رہا ہے پھوٹ کر
دل نہ پگھلے اور کس کا دل مرا دل حیف ہے
نازنیں پھر نازنیں تجھ سا جو روئے پھوٹ کر
یہ نہ مانے گا نہ سمجھائے سے سمجھے گا کبھی
تجھ پہ دل آیا ہے میرا اے ستم گر ٹوٹ کر
یاس و غم رنج و الم نے کر لیا ہے دل میں گھر
اے خوشیٔ وصل جاناں آئے دن بھی پھوٹ کر
اف رے ذوق جستجو اللہ رے شوق کوئے دوست
گرد رہ پیچھے رہی جاتی ہے مجھ سے چھوٹ کر
خاک اڑتی ہے دل ویراں میں اب رکھا ہے کیا
یاس سب کچھ لے گئی ارمان و حسرت لوٹ کر
کیوں ستاتا ہے فروغؔ مبتلا کو اس قدر
دل نہیں جڑتا نہیں جڑتا ستم گر ٹوٹ کر
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |