دل نہ لو دل کا یہ لینا ہے نہ اخفا ہوگا
دل نہ لو دل کا یہ لینا ہے نہ اخفا ہوگا
اس کو دل کہتے ہیں بس لیتے ہی چرچا ہوگا
تم کو ہر آن ادھر ہووے گی حسن آرائی
ہم کو ہر لحظہ ادھر ذوق تماشا ہوگا
ہم بھی سو چاہ سے دیکھیں گے تمہاری جانب
تم سے بھی ضبط تبسم نہ پھر اصلا ہوگا
جوں ہی ہم دیکھیں گے تم اور تبسم ہو گے
چاہ کا غنچۂ سربستہ وہیں وا ہوگا
گفتگو ہووے گی باہم جو اشارات کے ساتھ
متن اس کا بھی حریفوں میں محشا ہوگا
پاؤں تک ہاتھ جو لاویں گے کسی عذر سے ہم
تاڑنے والوں میں شور اس کا بھی برپا ہوگا
جب یہ تقریر سنی اس شہ خوباں نے نظیرؔ
ہم سے دل لے لیا اور ہنس کے کہا کیا ہوگا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |