دل پریشان ہوا جاتا ہے
دل پریشان ہوا جاتا ہے
اور سامان ہوا جاتا ہے
خدمت پیر مغاں کر زاہد
تو اب انسان ہوا جاتا ہے
موت سے پہلے مجھے قتل کرو
اس کا احسان ہوا جاتا ہے
لذت عشق الٰہی مٹ جائے
درد ارمان ہوا جاتا ہے
دم ذرا لو کہ مرا دم تم پر
ابھی قربان ہوا جاتا ہے
گریہ کیا ضبط کروں اے ناصح
اشک پیمان ہوا جاتا ہے
بے وفائی سے بھی رفتہ رفتہ
وہ مری جان ہوا جاتا ہے
عرصۂ حشر میں وہ آ پہنچے
صاف میدان ہوا جاتا ہے
مدد اے ہمت دشوارپسند
کام آسان ہوا جاتا ہے
چھائی جاتی ہے یہ وحشت کیسی
گھر بیابان ہوا جاتا ہے
شکوہ سن آنکھ ملا کر ظالم
کیوں پشیمان ہوا جاتا ہے
آتش شوق بجھی جاتی ہے
خاک ارمان ہوا جاتا ہے
عذر جانے میں نہ کر اے قاصد
تو بھی نادان ہوا جاتا ہے
مضطرب کیوں نہ ہوں ارماں دل میں
قید مہمان ہوا جاتا ہے
داغؔ خاموش نہ لگ جائے نظر
شعر دیوان ہوا جاتا ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |