دل چرا کر نظر چرائی ہے
دل چرا کر نظر چرائی ہے
لٹ گئے لٹ گئے دہائی ہے
ایک دن مل کے پھر نہیں ملتے
کس قیامت کی یہ جدائی ہے
اے اثر کر نہ انتظار دعا
مانگنا سخت بے حیائی ہے
میں یہاں ہوں وہاں ہے دل میرا
نارسائی عجب رسائی ہے
اس طرح اہل ناز ناز کریں
بندگی ہے کہ یہ خدائی ہے
پانی پی پی کے توبہ کرتا ہوں
پارسائی سی پارسائی ہے
وعدہ کرنے کا اختیار رہا
بات کرنے میں کیا برائی ہے
کب نکلتا ہے اب جگر سے تیر
یہ بھی کیا تیری آشنائی ہے
داغؔ ان سے دماغ کرتے ہیں
نہیں معلوم کیا سمائی ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |