دل ڈھونڈھتی ہے نگہ کسی کی

دل ڈھونڈھتی ہے نگہ کسی کی
by ریاض خیرآبادی

دل ڈھونڈھتی ہے نگہ کسی کی
آئینے کی ہے نہ آرسی کی

مالک مرے میں نے مے کشی کی
لیکن یہ خطا کبھی کبھی کی

کیا شکل ہے وصل میں کسی کی
تصویر ہیں اپنی بے بسی کی

کھل جائے صبا کی پاک بازی
بو پھوٹے جو باغ میں کلی کی

کم بخت کبھی نہ خوش ہوا تو
اے غم تری ہر طرح خوشی کی

منہ ہم نے ہنسی ہنسی میں چوما
جو ہو گئی بات تھی ہنسی کی

تانا سا تنا ہے میکدے میں
پگڑی اچھلی ہے شیخ جی کی

ہم کو جو دیا تو اور کا دل
دل لے کے یہ اچھی دل لگی کی

یوں بھی تو چلا نہ کام اپنا
دشمن سے بھی ہم نے دوستی کی

پائے گئے جس میں دل کے اجزا
ہوگی وہ خاک اسی گلی کی

ایسی ہے کہ پی سکے گا واعظ
ہے تازہ کشید آج ہی کی

مے خلد میں ہوگی صورت حور
میخانے میں شکل ہے پری کی

گھر ہے نہ کہیں نشاں لحد کا
مٹی ہے خراب بے کسی کی

سچ یہ ہے کہ زندگی ہو یا موت
ہر چیز بری ہے مفلسی کی

اچھی ہے گزک سے، تلخ مے سے
ملتی رہے روز روکھی‌ پھیکی

کچھ کچھ ہے ریاضؔ میرؔ کا رنگ
کچھ شان ہے ہم میں مصحفیؔ کی

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse