دل کسو سے تو کیا لگانا تھا

دل کسو سے تو کیا لگانا تھا
by منتظر لکھنوی
315676دل کسو سے تو کیا لگانا تھامنتظر لکھنوی

دل کسو سے تو کیا لگانا تھا
ہم کو منظور جی سے جانا تھا

آستاں تھا وہ آستانۂ عشق
کاٹ کر سر جہاں چڑھانا تھا

دید کو تیرے آئے تھے ہم یاں
زندگی کا فقط بہانہ تھا

نکلے وہ آہ اپنے دشمن جاں
ہم نے جن جن کو دوست جانا تھا

جس زمانہ میں ہم ہوئے تھے خلق
ہائے وو کیا برا زمانہ تھا

کیوں دیا اس پری کو دل تو نے
کیا تو اے منتظرؔ دوانہ تھا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.