دل کسو سے تو کیا لگانا تھا

دل کسو سے تو کیا لگانا تھا
by منتظر لکھنوی

دل کسو سے تو کیا لگانا تھا
ہم کو منظور جی سے جانا تھا

آستاں تھا وہ آستانۂ عشق
کاٹ کر سر جہاں چڑھانا تھا

دید کو تیرے آئے تھے ہم یاں
زندگی کا فقط بہانہ تھا

نکلے وہ آہ اپنے دشمن جاں
ہم نے جن جن کو دوست جانا تھا

جس زمانہ میں ہم ہوئے تھے خلق
ہائے وو کیا برا زمانہ تھا

کیوں دیا اس پری کو دل تو نے
کیا تو اے منتظرؔ دوانہ تھا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse