دل کسی مشتاق کا ٹھنڈا کیا
دل کسی مشتاق کا ٹھنڈا کیا
خوب کیا آپ نے اچھا کیا
آج حیا آنکھ کی کچھ اور ہے
چاہنے والا کوئی پیدا کیا
ہائے رے پیماں شکنی کے مزے
جب میں گیا وعدۂ فردا کیا
کچھ تو کسی نے انہیں سمجھا دیا
ہم جو گئے آج تو پردہ کیا
گو کہ نہ تھا میری طرف منہ مگر
ترچھی نگاہوں سے وہ دیکھا کیا
آہ کی تقصیر نہیں ہے مگر
بے اثری نے مجھے رسوا کیا
کہہ کے لے آتے ہیں تمہیں ہوشیار
یہ نہ کیا ہم نے تو پھر کیا کیا
موت کے صدقے کہ یہ کہتے تھے وہ
آج نہ اس نے کوئی پھیرا کیا
آپ کے احسان کی تعریف ہے
میں نے اگر شکوۂ اعدا کیا
نام میرا سنتے ہی شرما گئے
تم نے تو خود آپ کو رسوا کیا
قدر مری تم نے نہ کی ورنہ میں
کیا کہوں کیا آپ کو سمجھا کیا
میں نے تو اے جان جہاں جان دی
تم نے ادا حق وفا کیا کیا
پھر وہ نہائے عرق شرم میں
کس نے مرے عشق کا چرچا کیا
میں دل صد چاک کا کہتا تھا حال
شانہ عبث زلف سے الجھا کیا
اس کی نظر میں ہوا ہلکا نسیمؔ
مجھ سے مرے شوق نے کیا کیا کیا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |