دل کشی نام کو بھی عالم امکاں میں نہیں
دل کشی نام کو بھی عالم امکاں میں نہیں
اپنے مطلب کا کوئی پھول گلستاں میں نہیں
وعدۂ وصل پہ کھنچتا ہوا ہاں کا لہجہ
ایک انداز ہے کہنے کا ترے ہاں میں نہیں
آپ کہتے ہیں کہ تقدیر کی گردش میں رہے
مانتا ہوں کہ یہ دل گیسوئے پیچاں میں نہیں
بس کسی کا نہیں صیاد خطا کیا تیری
آب و دانہ مری قسمت کا گلستاں میں نہیں
خاک ہونے سے بنا چشم فلک کا سرمہ
خاکساری جو نہیں خاک بھی انساں میں نہیں
نقش توحید ہے ہر نقش جبین سجدہ
کہیں کعبے کا تو پتھر در جاناں میں نہیں
پہلے ہی لوٹ تھا پروانہ تری محفل پر
اب یہ سنتے ہیں کہ بلبل بھی گلستاں میں نہیں
پاک بازی کی طرف جب سے جھکے ہیں کیفیؔ
بادہ نوشی کا مزا محفل رنداں میں نہیں
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |