دل کو اسی سبب سے ہے اضطراب شاید
دل کو اسی سبب سے ہے اضطراب شاید
قاصد پھرا ہے لے کر خط کا جواب شاید
آنکھیں چڑھی ہوئی ہیں باتیں ہیں بہکی بہکی
آئے ہو تم کہیں سے پی کر شراب شاید
کیا جانے کس ہوا میں اتنا ابھر رہا ہے
ہستی نہیں سمجھتا اپنی حباب شاید
مجھ پر جو وہ سحر سے اس درجہ مہرباں ہیں
شب کی دعا ہوئی ہے کچھ مستجاب شاید
بیمار ہوں بندھی ہے دھن رات دن سفر کی
غربت میں اپنی مٹی ہوگی خراب شاید
پچھلے سے وصل کی شب آثار صبح کے ہیں
نکلے گا رات ہی سے آج آفتاب شاید
آیا بہت دنوں پر زاہد جو میکدے میں
بھولی ہوئی تھی اس کو راہ ثواب شاید
برسات کی کمی سے کیا قدر گھٹ گئی ہے
ایسی کبھی بکی ہو ارزاں شراب شاید
اپنے دماغ میں تو اب یہ بسی ہوئی ہے
بہتر ترے پسینے سے ہو گلاب شاید
بزم عدو میں آ کر جس طرح ہم جلے ہیں
دوزخ میں ہو کسی پر ایسا عذاب شاید
اشکوں سے تر ہوئی تھی یوں رات سیج ان کی
یاد آ گیا تھا کوئی ہنگام خواب شاید
اے شیخ تو ملا کر دیکھ ان سے عمر اپنی
حوروں کا ڈھل گیا ہو اب تو شباب شاید
توبہ حفیظؔ مے کا پڑ جائے جس کو چسکا
پھر اس سے مرتے دم تک چھوٹے شراب شاید
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |