دل کو افسوس جوانی ہے جوانی اب کہاں
دل کو افسوس جوانی ہے جوانی اب کہاں
کوئی دم میں چل بسیں گے زندگانی اب کہاں
آپ الٹتے ہیں وہ پردہ وہ کہانی اب کہاں
عاشقوں سے گفتگو ہے لن ترانی اب کہاں
جب ہمارے پاس تھے ان کو ہمارا پاس تھا
تھی ہماری قدر جب تھی قدر دانی اب کہاں
اے پری پیکر ترا میرے ہی دم تک تھا بناؤ
سرخ موباف و لباس زعفرانی اب کہاں
بد مزاجی نوجوانی نے سکھائی ہے انہیں
دشمن جاں ہو گئے ہیں مہربانی اب کہاں
یار آ نکلا تھا اے دل پھر وہ کیوں آنے لگا
ہو گیا اک یہ بھی امر ناگہانی اب کہاں
بعد میرے پھر کسی نے بھی سنی آواز یار
تھی مجھی تک لن ترانی لن ترانی اب کہاں
باغ میں نہریں بھری ہیں پھول پھل کا تھا مزا
بند ہیں کنج قفس میں دانہ پانی اب کہاں
تیری اور اپنی حقیقت جا کے عیسیٰ سے کہوں
اس قدر طاقت بھلا اے ناتوانی اب کہاں
شیفتہ جب تک نہ تھے شہرت تھی ضبط و صبر کی
درد تنہائی کی تاب اے یار جانی اب کہاں
دل میں طاقت تھی تڑپ لیتے تھے بسمل کی طرح
جان میں حالت نہیں وہ جانفشانی اب کہاں
گھور لیتے تھے جفا کاروں کو جب مفتوں نہ تھے
ہو گئے چورنگ خود چنگیز خانی اب کہاں
اپنی قدرت اس نے دکھلا دی شب معراج میں
ہو چکی بس میہمانی میہمانی اب کہاں
لہلہاتے تھے چمن مفتوں گلوں پر تھے بہار
لٹ گئی بو باس اے برگ خزانی اب کہاں
حال دل کہواتے تھے جب فاسد آتے جاتے تھے
نامۂ شوق اور پیغام زبانی اب کہاں
داغ دل اس نے دیا تھا دل کو ہم نے کھو دیا
اے شرفؔ اس بے مروت کی نشانی اب کہاں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |