دل کو تسکیں ہو گئی ہے سامنے آنے کے بعد

دل کو تسکیں ہو گئی ہے سامنے آنے کے بعد
by راجہ نوشاد علی خان

دل کو تسکیں ہو گئی ہے سامنے آنے کے بعد
جان جائے گی ہماری آپ کے جانے کے بعد

مجھ سے دیوانہ کو سمجھانا اسی کا کام ہے
خود سمجھ جائے گا ناصح مجھ کو سمجھانے کے بعد

تجھ سے پہلے مٹ چکے ہیں کیسے کیسے نامور
نام تیرا بھی نہ لے گا کوئی مر جانے کے بعد

میہماں ہوتے تھے جب وہ دل پہ بس رہتا نہ تھا
ایک دن آنے کے پہلے ایک دن جانے کے بعد

اٹھ گئے بالیں سے تم بیمار کا یہ حال تھا
آنکھ میں آنسو بھرے تھے ہوش میں آنے کے بعد

تجھ کو اے شیخ حرم کعبہ مبارک ہو ترا
دوسرا گھر ہم نہیں دیکھیں گے مے خانہ کے بعد

شرم سے گردن جھکا کر چٹکیاں لینے لگی
شوخیاں کرنے لگے پھر آپ شرمانے کے بعد

ہم کہا کرتے ہیں ان کے کوچہ میں ہر ایک سے
دفن کر دینا یہیں پر ہم کو مر جانے کے بعد

ظلم سے اپنے پشیمان آخرش ہونا پڑا
جھک گئیں ان کی نگاہیں لاش پر آنے کے بعد

ہو گئے سیراب پی کر خون دل اے عشق ہم
خوب آسودہ ہوئے لخت جگر کھانے کے بعد

مجھ کو مرنے کا نہیں غم رنج ہے اس بات کا
ظلم وہ کس پر کریں گے میرے مر جانے کے بعد

عشق میں افسردہ ہو کر دل کا ہوتا ہے وہ رنگ
پھول کا جو حال ہو جاتا ہے مرجھانے کے بعد

سر جھکا کر لاش پر آئے ہیں کس انداز سے
وہ دوا کرنے جو آئے بھی تو مر جانے کے بعد

راستے سے وہ پلٹ کر آ رہے ہیں کس لئے
کیا خیال آیا انہیں نوشادؔ گھر جانے کے بعد

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse