دل کو درد آشنا کیا تو نے
دل کو درد آشنا کیا تو نے
درد دل کو دوا کیا تو نے
طبع انساں کو دی سرشت وفا
خاک کو کیمیا کیا تو نے
وصل جاناں محال ٹھہرایا
قتل عاشق روا کیا تو نے
تھا نہ جز غم بساط عاشق میں
غم کو راحت فزا کیا تو نے
جان تھی اک وبال فرقت میں
شوق کو جاں گزا کیا تو نے
تھی محبت میں ننگ منت غیر
جذب دل کو رسا کیا تو نے
راہ زاہد کو جب کہیں نہ ملی
درمے خانہ وا کیا تو نے
قطع ہونے ہی جب لگا پیوند
غیر کو آشنا کیا تو نے
تھی جہاں کارواں کو دینی راہ
عشق کو رہنما کیا تو نے
ناؤ بھر کر جہاں ڈبونی تھی
عقل کو ناخدا کیا تو نے
بڑھ گئی جب پدر کو مہر پسر
اس کو اس سے جدا کیا تو نے
جب ہوا ملک و مال رہزن ہوش
بادشہ کو گدا کیا تو نے
جب ملی کام جاں کو لذت درد
درد کو بے دوا کیا تو نے
جب دیا راہرو کو ذوق طلب
سعی کو نارسا کیا تو نے
پردۂ چشم تھے حجاب بہت
حسن کو خود نما کیا تو نے
عشق کو تاب انتظار نہ تھی
غرفہ اک دل میں وا کیا تو نے
حرم آباد اور دیر خراب
جو کیا سب بجا کیا تو نے
سخت افسردہ طبع تھی احباب
ہم کو جادو نوا کیا تو نے
پھر جو دیکھا تو کچھ نہ تھا یا رب
کون پوچھے کہ کیا کیا تو نے
حالیؔ اٹھا ہلا کے محفل کو
آخر اپنا کہا کیا تو نے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |