دل کو سکون روح کو آرام آ گیا
دل کو سکون روح کو آرام آ گیا
موت آ گئی کہ دوست کا پیغام آ گیا
جب کوئی ذکر گردش آیام آ گیا
بے اختیار لب پہ ترا نام آ گیا
غم میں بھی ہے سرور وہ ہنگام آ گیا
شاید کہ دور بادۂ گلفام آ گیا
دیوانگی ہو عقل ہو امید ہو کہ یاس
اپنا وہی ہے وقت پہ جو کام آ گیا
دل کے معاملات میں ناصح شکست کیا
سو بار حسن پر بھی یہ الزام آ گیا
صیاد شادماں ہے مگر یہ تو سوچ لے
میں آ گیا کہ سایہ تہ دام آ گیا
دل کو نہ پوچھ معرکۂ حسن و عشق میں
کیا جانیے غریب کہاں کام آ گیا
یہ کیا مقام عشق ہے ظالم کہ ان دنوں
اکثر ترے بغیر بھی آرام آ گیا
احباب مجھ سے قطع تعلق کریں جگرؔ
اب آفتاب زیست لب بام آ گیا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |