دل کے آغوش میں وہ راحت جاں رہتا ہے
دل کے آغوش میں وہ راحت جاں رہتا ہے
بندہ خانی میں خداوند جہاں رہتا ہے
عشق کے آتے ہی سب جاتے رہے ہوش و حواس
جانور رہتے نہیں شیر جہاں رہتا ہے
ایک اقلیم میں دو شاہ نہیں رہ سکتے
عشق جب آیا لو آرام کہاں رہتا ہے
ڈھونڈیئے دل کو تو کہتے ہیں وہ یہ سینہ سپر
اک مرے خانۂ زنجیر میں یہاں رہتا ہے
گزرے اے پیک صبا تو یہ دعا کہہ دینا
کوچۂ زلف میں دل نام جواں رہتا ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |