دل گیا تم نے لیا ہم کیا کریں
دل گیا تم نے لیا ہم کیا کریں
جانے والی چیز کا غم کیا کریں
ہم نے مر کر ہجر میں پائی شفا
ایسے اچھوں کا وہ ماتم کیا کریں
اپنے ہی غم سے نہیں ملتی نجات
اس بنا پر فکر عالم کیا کریں
ایک ساغر پر ہے اپنی زندگی
رفتہ رفتہ اس سے بھی کم کیا کریں
کر چکے سب اپنی اپنی حکمتیں
دم نکلتا ہو تو ہمدم کیا کریں
دل نے سیکھا شیوۂ بیگانگی
ایسے نامحرم کو محرم کیا کریں
معرکہ ہے آج حسن و عشق کا
دیکھیے وہ کیا کریں ہم کیا کریں
آئینہ ہے اور وہ ہیں دیکھیے
فیصلہ دونوں یہ باہم کیا کریں
آدمی ہونا بہت دشوار ہے
پھر فرشتے حرص آدم کیا کریں
تند خو ہے کب سنے وہ دل کی بات
اور بھی برہم کو برہم کیا کریں
حیدرآباد اور لنگر یاد ہے
اب کے دلی میں محرم کیا کریں
کہتے ہیں اہل سفارش مجھ سے داغؔ
تیری قسمت ہے بری ہم کیا کریں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |