دل ہم نے جو چشم بت بے باک سے باندھا

دل ہم نے جو چشم بت بے باک سے باندھا
by نظیر اکبر آبادی

دل ہم نے جو چشم بت بے باک سے باندھا
پھر نشۂ صہبا سے نہ تریاک سے باندھا

اس زلف سے جب ربط ہوا جی کو تو ہم نے
شانے کا تصور دل صد چاک سے باندھا

دیکھا نہ قد سرو کو پھر ہم نے چمن میں
جس دن سے دل اس قامت چالاک سے باندھا

جو آہوئے دل بھا گیا اس صد فگن کو
جھپ اس نے اسے کاکل پیچاک سے باندھا

اور جو نہ پسند آیا اسے وہ تو نظیرؔ آہ
نے صید کیا اس کو نہ فتراک سے باندھا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse