دم آخر کسی کا شکوۂ بیداد کرتے ہیں

دم آخر کسی کا شکوۂ بیداد کرتے ہیں
by ریاض خیرآبادی

دم آخر کسی کا شکوۂ بیداد کرتے ہیں
نہیں ہیں ہچکیاں رہ رہ کے ہم فریاد کرتے ہیں

رہا ہو کر ہم اتنی خاطر صیاد کرتے ہیں
نشیمن رات کو دن کو قفس آباد کرتے ہیں

فغاں سن کر مری وہ ناز سے ارشاد کرتے ہیں
کہاں تو مر رہی اے موت تجھ کو یاد کرتے ہیں

بڑھاپے میں تجھے ہم اے جوانی یاد کرتے ہیں
اب اپنی عمر آخر اس طرح برباد کرتے ہیں

عجب انداز سے کہتی ہیں دل کی حسرتیں مجھ سے
ہمیں گھر سے نکالیں گھر وہ کیوں برباد کرتے ہیں

نہ آنکھوں میں کبھی آنسو نہ ہونٹھوں پر کبھی نالے
نہ ہم قسمت کو روتے ہیں نہ ہم فریاد کرتے ہیں

گلے میں کیوں رگ جاں بن کے خنجر رہ گیا تیرا
کہیں بسمل سے ایسی شوخیاں جلاد کرتے ہیں

یہ کیوں ہے دشمنوں کو دوستوں کو جستجو اس کی
وہ مجھ پر رحم فرماتے ہیں یا بیداد کرتے ہیں

گرانا ہے ہمیں کچھ بجلیاں صیاد کے گھر پر
اثر خیز اک نئی طرز فغاں ایجاد کرتے ہیں

دل مضطر کی تصویریں بھری ہیں کیا مرقع میں
کچھ استادی بھی اس میں مانی و بہزاد کرتے ہیں

ہمارے ساتھ ہے صیاد بھی یا رب مصیبت میں
کلیجا منہ کو آتا ہے جو ہم فریاد کرتے ہیں

لکھا کس حسن سے خط میں کہ ہم تجھ سے کشیدہ ہیں
کشش حرفوں کی ایسی ہے کہ ہم بھی صاد کرتے ہیں

اٹھوں گا یوں ہی محشر میں لیے میں ان کے خنجر کو
گلے میرے لگاتے ہیں یہ کیا جلاد کرتے ہیں

کہاں وہ ہیں کہاں ہم ہیں پڑا ہے تفرقہ یا رب
وہ ہم کو یاد کرتے ہیں ہم ان کو یاد کرتے ہیں

مری صورت جو دیکھی ہم نشیں سے ہنس کے فرمایا
یہی کہسار پر اب ماتم فرہاد کرتے ہیں

کبھی تھوڑی سی پی لی لب نہیں اس کی بھی کچھ پروا
الگ گوشے میں بیٹھے ہیں خدا کو یاد کرتے ہیں

مجھے دیکھا تو بولے میرے کوچے سے نکل جائیں
یہ دل میں چٹکیاں لیتے ہیں یا فریاد کرتے ہیں

بزرگی ہے کہ مرتے ہیں بتان شوخ پر اب بھی
ریاضؔ اس عمر میں کیوں عاقبت برباد کرتے ہیں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse