دم بخود بیٹھ کے خود جیسے زباں گیلی ہے

دم بخود بیٹھ کے خود جیسے زباں گیلی ہے
by آرزو لکھنوی

دم بخود بیٹھ کے خود جیسے زباں گیلی ہے
سانس کیا لوں کہ ہوا دہر کی زہریلی ہے

بن گیا قطرۂ ناچیز ترقی سے گہر
ذات ہے ایک فقط نام کی تبدیلی ہے

لاگ نے جس کی مجھے پھونکا ہے اندر اندر
شمع اس آگ کی اک ہیئت تمثیلی ہے

مل کے مٹی تری چوکھٹ کی ہوا خاک سے پاک
جو لکیر اب مرے ماتھے کی ہے چمکیلی ہے

پھر اڑانا ہیں گریباں کے مجھی کو پرزے
ہاتھ بے کار ابھی تھے کی قبا سی لی ہے

آرزوؔ ہوگا یہ مقتل ہی عزا خانہ بھی
شفقی فرش زمیں کا ہے تو چھت نیلی ہے

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse