دنیا بہ امید قائم ہے

دنیا بہ امید قائم ہے
by سید احمد خان
319323دنیا بہ امید قائم ہےسید احمد خان

موجودہ حالت گو وہ کیسی ہی اچھی یا بری ہو، انسان کے دل کے مشغلہ کو کافی نہیں ہوتی۔ موجودہ رنج و خوشی، محبت و دوستی کی چیزیں اتنی نہیں ہوتیں کہ انسان کے دل کی قوتوں کو ہمیشہ مشغول رکھیں۔ اس لیے ا س بڑے کا ریگر نے جس نے انسان کے پتلے کو اپنے ہاتھ سے اور اپنی ہی مانند بنایا، اس میں چند اور قوتیں دی ہیں جن کے سبب سے دل کے لیے کاموں کی کبھی کمی نہیں ہوتی اور ہمیشہ اور وقت دل کے مشغول رہنے کا سامان مہیا اور موجود رہتا ہے۔ ان ہی قوتوں کے ذریعہ گزری ہوئی باتیں پھر دل میں آتی ہیں اور آئندہ کی باتوں کا ان کے ہونے سے پیشتر خیال ہوتا ہے۔

وہ عجیب قوت جس کو ہم یاد رکھتے ہیں، ہمیشہ پیچھے دیکھتی رہتی ہے۔ جب کوئی موجودہ چیز ہم کو شغل کے لیے نہیں ملتی تو وہ قوت پچھلی باتوں کو بلا لاتی ہے اور اسی کے ذکر یا خیال سے ہمارے دل کو بہلائے رکھتی ہے۔ اس کی مثال جگالی کرنے والے جانوروں کی ہے کہ وہ پہلے تو گھانس دانا سب کھا لیتے ہیں اور جب ہو چکتا ہے تو ایک کونے میں بیٹھ کر پھر اسی کو پیٹ میں سے نکال کر چبائے جاتے ہیں۔

جس طرح کہ یاد پچھلی باتوں کو خالی وقت میں ہمارے دل کے مشغلہ کو بلا لاتی ہے، اسی طرح ایک اور قوت ہے جو آئندہ ہونے والی باتوں کے خیال میں دل کو مشغول کر دیتی ہے اور جس کا نام امید و بیم یا خوف و رجا ہے۔ انہی دونوں قسم کے خیالوں سے ہم آئندہ زمانہ تک پہنچ جاتے ہیں اور جو باتیں کہ دور زمانہ میں شاید ہونے والی ہیں اور ظلمات کے پردوں میں چھپی ہوئی ہیں اور بڑے گہرے گڑھوں میں پڑی ہوئی ہیں ان کو ایسا سمجھتی ہیں کہ ابھی ہو رہی ہیں۔ ان کے ہونے سے پہلے ان کی خوشی یا رنج اٹھانے لگتے ہیں۔ یہاں تک کہ اس زمانہ کا بھی جب نہ کی زمین ہوگی نہ آسمان، اور ہر چہار طر ف سے لمن الملک الیوم کی آواز آتی ہوگی، ابھی خیال کر لیتے ہیں۔ پھر کون کہہ سکتا ہے کہ انسان کی زندگی صرف موجودہ وقت پر محدود ہے۔

میرا ارادہ ہے کہ میں اس تحریر میں صرف اسی کا کچھ بیان کروں جس کو امید کہتے ہیں۔ ہماری خوشیاں اس قدر کم و چند روزہ ہیں کہ اگر وہ قوت ہم میں نہ ہوتی جس سے انسان ان عمدہ اور دل خوش کن چیزوں کا ان کے ہونے سے پہلے مزہ اٹھاتا ہے جن کا کبھی ہوجانا ممکن ہے تو ہماری زندگی نہایت ہی خراب اور بد مزہ ہوتی۔ ایک شاعر کا قول ہے کہ ’’ہم کو تمام عمدہ چیزوں کے حاصل ہونے کی امید رکھنی چاہیے کیوں کہ کوئی چیز ایسی نہیں ہے جس کی امید نہ ہو سکے اور کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو خدا ہم کو دے نہ سکے۔‘‘

فارسی زبان مین مشہور مقولہ ہے کہ ’’تمنا را عیبے نیست‘‘ ایک ظریف نے کہا کہ دنیا میں مجھے کسی چیز کا رنج نہیں ہے کیوں کہ امید مجھے ہمیشہ خوش رکھتی ہے۔ دوستوں نے پوچھا کہ کیا تم کو مرنے کا بھی رنج نہیں ہے اس نے کہا کہ کیا عجب ہے کہ میں کبھی نہ مروں کیوں کہ خدا اس پر بھی قادر ہے کہ ایک ایسا شخص پید ا کرے جس کو موت نہ ہو اور مجھ کو امید ہے کہ شاید وہ شخص میں ہی ہوں۔ یہ قول تو ایک ظرافت کا تھا۔ مگر سچ یہ ہے کہ زندگی کی امید ہی موت کا رنج ہم سے مٹاتی ہے۔ اگر ہم کو زندگی کی امید نہ ہوتی تو ہم سے زیادہ بد تر حالت کسی کی نہ ہوتی۔ زندگی ایک بے جان چیز کی مانند ہے جس میں کچھ حرکت نہیں ہوتی۔ امید اس میں حرکت پیدا کرتی ہے۔ امید ہی کے سبب سے انسان میں سنجیدگی اور بردباری اور خوش مزاجی کی عادت ہو جاتی ہے۔

گویا امید انسان کی روح کی جان ہے۔ ہمیشہ روح کو خوش رکھتی ہے اور تمام تکلیفوں کو آسان کر دیتی ہے۔ محنت پر رغبت دلاتی ہے او ر انسان کو نہایت سخت اور مشکل کاموں کے کرنے پر آمادہ رکھتی ہے۔ امید سے ایک اور بھی فائدہ ہے جو کچھ کم نہیں ہے کہ ہم موجودہ خوشیوں کی کچھ بہت قدر نہیں کرتے اور اسی میں محو نہیں ہو جاتے۔ سیزر نے جب اپنا تمام مال اسباب اپنے دوستوں کو بانٹ دیا تو اس سے لوگوں نے پوچھا کہ آپ نے اپنے لیے کیا رکھا۔ اس نے کہا کہ امید۔ اس کی عالی طبیعت ان چیزوں کی کچھ قدر نہیں کرتی تھی جو اس کے پا س تھیں بلکہ ہمیشہ اس کا خیال کسی بہتر چیز کی طرف رہتا تھا۔

اگلے زمانے کے لوگ بغیر امید کے زندگی کو نہایت ہی برا سمجھتے تھے۔ نقل ہے کہ خدا نے انسان کے پاس ایک صندوقچہ بھیجوایا۔ جب اس کو کھولا تو اس میں ہر ایک قسم کی بلائیں اور مصیبتیں اور بیماریاں جو انسان کو ہوتی ہیں سب نکل پڑیں۔ امید بھی اسی صندوقچہ ہی میں بند ہوگئی تاکہ مصیبت کے وقت انسان کو تسلی دے۔ پس جس زندگی میں امید ہے اس سے بڑھ کر کوئی خوش زندگی نہیں ہے خصوصاً جب کہ امید ایک عمدہ چیز کی اور اچھی بنا پر ہو، اور ایسی چیز کی ہو جو امید کرنے والے کو حقیقت میں خوش کر سکتی ہو۔ اس بات کی حقیقت وہی لوگ خوب جانتے ہیں جو سمجھتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ خوش حال آدمی کے لیے بھی زمانہ موجودہ میں کافی خوشی نہیں ہے۔

میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ مذہبی زندگی میں عمدہ عمدہ چیزوں کی بہت سی امیدیں ہوتی ہیں اور ایسی چیزوں کی ہوتی ہیں جو ہم کو پورا پورا خوش کر سکتی ہیں۔ دینی چیزوں کی امیدیں دنیوی چیزوں کی امیدوں سے بہت زیادہ قوی اور مضبوط ہوتی ہیں کیوں کہ ان میں عقل کے علاوہ مذہبی اعتقاد کی بھی نہایت قوّت ہوتی ہے۔ اس قسم کی امیدوں کا خیال ہی ہم کو پورا پورا خوش رکھتا ہے۔ بلا شبہ امید کے اثر سے انسان کی زندگی نہایت شیریں ہو جاتی ہے۔ اگر وہ موجودہ حالت سے خوش نہیں رہتا تو اس پر صبر تو ضرور آ جاتا ہے مگر مذہبی امیدیں اس سے بھی زیادہ فائدہ مند ہیں۔ تکلیف کی حالت میں دل کو سنبھال لیتی ہیں بلکہ اس کو اس خیال سے خوش رکھتی ہیں کہ شاید یہی تکلیف اس امید کے حاصل ہونے کا ذریعہ ہو۔ مذہبی امید گویا مردہ کو زندہ کر دیتی ہے اور اس کے دل کو غایت درجہ کی خوشی بخشتی ہے۔ انسان اپنی تکلیفوں میں خوش رہتا ہے اور روح اس بری چیز کے لپک لینے کو اچھلتی ہے جو ہمیشہ اس کی نظر میں رہتی ہے اور آخر کار اس امید کی خوشی میں اس فانی جسم کو چھوڑ دیتی ہے کہ قیامت کے دن اس سے مل جاوےگی۔

حضرت داؤد علیہ السلام نے اپنے نہایت مصیبت اور تکلیف کے وقت میں خدا کی مناجات میں اس مضمون کا گیت گایا تھا۔۔۔ میں ہمیشہ خدا کو اپنے سامنے رکھتا ہوں۔ وہ میری دائیں طرف ہے اس لیے میں گھبراتا نہیں۔ میرا دل خوش ہے، میرا گوشت بھی اسی امید میں رہے گا کہ میری روح کو جہنم میں نہ ڈالے۔ تو اپنی چیز کو خراب ہوتے ہوئے نہ دیکھےگا۔ تو ہی مجھ کو زندگی کے طریق دکھلائےگا۔ تیرے ہی حضور میں خوشی کا کمال ہے۔ تیرے ہی دائیں طرف ہمیشہ کی خوشی ہے۔ آمین۔


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.