دنیا سے الگ ہم نے میخانے کا در دیکھا

دنیا سے الگ ہم نے میخانے کا در دیکھا
by ریاض خیرآبادی

دنیا سے الگ ہم نے میخانے کا در دیکھا
میخانے کا در دیکھا اللہ کا گھر دیکھا

گوشے سے نشیمن کے آہوں کا اثر دیکھا
صیاد کا گھر جلتے بے برق و شرر دیکھا

دونوں کے مزے لوٹے دونوں کا اثر دیکھا
اللہ کا گھر دیکھا میخانے کا در دیکھا

یوں حشر میں سیریں کیں فردوس و جہنم کی
کچھ دیر ادھر دیکھا کچھ دیر ادھر دیکھا

اے شیخ وہ کعبہ ہو یا ہو در مے خانہ
تو نے مجھے جب دیکھا سجدے ہی میں سر دیکھا

نالہ ہمیں کرنا تھا دم عشق کا بھرنا تھا
سو رنگ سے مرنا تھا ہر رنگ سے مر دیکھا

جب موج ابھرتی ہے کہتی ہے وہ شوخی سے
بازو میں بط مے کے سرخاب کا پر دیکھا

ٹانکے دیئے جاتے ہیں کیوں لب سیے جاتے ہیں
ہنسنے کا مزا تو نے اے زخم جگر دیکھا

نسبت نہیں مجھ کو کچھ بیکس کے بجھے دل سے
بجھتے ہوئے تجھ کو بھی آئے شمع سحر دیکھا

سہمے ہوئے بیٹھے ہیں کھوئے ہوئے بیٹھے ہیں
جس رات کے ارماں تھے اس رات کو ڈر دیکھا

پھل پھول نہیں لاتے یہ باغ محبت میں
ہر نخل تمنا کو بے برگ و ثمر دیکھا

کعبے میں نظر آئے جو صبح اذاں دیتے
میخانے میں راتوں کو ان کا بھی گزر دیکھا

کچھ کام نہیں مے سے گو عشق ہے اس شے سے
میں رند ریاضؔ ایسے دامن بھی نہ تر دیکھا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse