دنیا میں ہم سا کوئی سراپا الم نہیں
دنیا میں ہم سا کوئی سراپا الم نہیں
وہ دن ہی کون سا ہے کہ جو روز غم نہیں
ہر دم ترے مریض کی حالت خراب ہے
درد آج دل میں کل سے زیادہ ہے کم نہیں
کیا غم مجھے مٹائے فلک ڈھونڈھ ڈھونڈ کر
نام اپنا فرد ناموری میں رقم نہیں
گل کھل رہے ہیں آمد فصل بہار ہے
بلبل چہک رہی ہے صریر قلم نہیں
اہل قلم ہوں زیر نگیں ملک نظم ہے
کیوں کر کہوں کہ صاحب طبل و علم نہیں
کیا کیا عزیز خاک ہوئے مل کے خاک میں
لیکن یہاں کسی کا کسی کو بھی غم نہیں
ہوتی ہے غیب سے مری امداد اے فلک
منت کش عنایت اہل کرم نہیں
یاران رفتگاں سے بہت جی کو انس ہے
ملتے اگر مسافر ملک عدم نہیں
گر درد دل یوں ہیں ہے سلامت تو ایک دن
روشنؔ یہ یاد رکھنا کہ دنیا میں ہم نہیں
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |