دنیا والوں نے چاہت کا مجھ کو صلہ انمول دیا
دنیا والوں نے چاہت کا مجھ کو صلہ انمول دیا
پیروں میں زنجیریں ڈالیں ہاتھوں میں کشکول دیا
اتنا گہرا رنگ کہاں تھا رات کے میلے آنچل کا
یہ کس نے رو رو کے گگن میں اپنا کاجل گھول دیا
یہ کیا کم ہے اس نے بخشا ایک مہکتا درد مجھے
وہ بھی ہیں جن کو رنگوں کا اک چمکیلا خول دیا
مجھ سا بے مایہ اپنوں کی اور تو خاطر کیا کرتا
جب بھی ستم کا پیکاں آیا میں نے سینہ کھول دیا
بیتے لمحے دھیان میں آ کر مجھ سے سوالی ہوتے ہیں
تو نے کس بنجر مٹی میں من کا امرت ڈول دیا
اشکوں کی اجلی کلیاں ہوں یا سپنوں کے کندن پھول
الفت کی میزان میں میں نے جو تھا سب کچھ تول دیا
This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator. |