دنیا کی جستجو تو ہم سے نہ ہو سکے گی
دنیا کی جستجو تو ہم سے نہ ہو سکے گی
یہ منت آرزو تو ہم سے نہ ہو سکے گی
گو شام سے سحر تک روئے ہے اور جلے ہے
یہ شمع دو بدو تو ہم سے نہ ہو سکے گی
بہتیری غائبانہ کرتے رہیں شکایت
پر اس کے رو بہ رو تو ہم سے نہ ہو سکے گی
مے خانۂ جہاں میں گزران شیخ صاحب
بے جام و بے سبو تو ہم سے نہ ہو سکے گی
کیا پوچھتا ہے ؔجوشش تعریف اس دہن کی
کچھ اس میں گفتگو تو ہم سے نہ ہو سکے گی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |