دن بدن اب لطف تیرا ہم پہ کم ہونے لگا
دن بدن اب لطف تیرا ہم پہ کم ہونے لگا
یا تو تھا ویسا کرم یا یہ ستم ہونے لگا
سچ کہو تقصیر کیا ہے عاشق مظلوم کی
نیمچا ترچھی نگہ کا کیوں علم ہونے لگا
تیغ ابرو کوں نپٹ کستے ہو پن حیراں ہوں میں
کون سے بیمار پر یہ آب دم ہونے لگا
شکر اللہ سرو رعنا کے تصور کے طفیل
رفتہ رفتہ دل مرا باغ ارم ہونے لگا
بس کرو اے شاہ فوج حسن قتل عام کوں
عاشقوں کی آہ کا نیزہ علم ہونے لگا
تجھ کوں اے آہو نگہ کس نے سکھایا یہ طرح
یا تو تھا اوروں سیں رم یا ہم سیں رم ہونے لگا
ہجر کی راتوں میں یہ مصرع ہوا ورد سراج
دن بہ دن اب لطف تیرا ہم پہ کم ہونے لگا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |