دن رات کس کی یاد تھی کیسا ملال تھا

دن رات کس کی یاد تھی کیسا ملال تھا
by قائم چاندپوری

دن رات کس کی یاد تھی کیسا ملال تھا
صدقے میں کچھ تو بول تو کیا تجھ پہ حال تھا

چھوٹا ترا مریض اگر مر گیا کہ شوخ
جو دم تھا زندگی کا سو اس پر وبال تھا

ناخن ترے کی مہندی سے تنہا نہیں ہیں داغ
چندے شفق سے نعل در آتش ہلال تھا

اس سوچ سے کھلی ہے حقیقت کہ ایک عمر
مکھی کی فرج و شیخ کی داڑھی کا بال تھا

جھگڑا مرا کیا ہی نہ تیں صاف ورنہ شوخ
ذرہ زباں پہ تیغ کی یہ انفصال تھا

قائمؔ میں ریختہ کو دیا خلعت قبول
ورنہ یہ پیش اہل ہنر کیا کمال تھا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse