دن کے روپ میں رات کہانی

دن کے روپ میں رات کہانی
by میراجی

رات کے پھیلے اندھیرے میں کوئی سایہ نہیں
جھلملاتے ہوئے کمزور ستارے یہ کہے جاتے ہیں
چاند آئے گا تو سائے بھی چلے آئیں گے
رات کے پھیلے اندھیرے میں کوئی سایہ نہیں ہوتا ہے

رات اک بات ہے صدیوں کی کئی صدیوں کی
یا کسی پچھلے جنم کی ہوگی
رات کے پھیلے اندھیرے ہیں کوئی سایہ نہ تھا
رات کا پھیلا اندھیرا محتاج
اک بھکاری تھا اسی پہلی کرن کا جو لرزتے ہوئے آتی ہے جگا دیتی ہے
سوئے سایوں کو اٹھا دیتی ہے بیداری میں
زیست کے ہلتے ہوئے جھومتے آثار نظر آتے ہیں
زیست سے پہلے مگر بات کوئی اور ہی تھی
رات کے پھیلے اندھیرے میں کوئی سایہ نہ تھا
چاند کے آنے پہ سائے آئے

اس کے بکھرے ہوئے گیسو سائے
لاج کی میٹھی جھجک بھی سایہ
اور بھی سائے تھے ہلکے گہرے
کالی آنکھوں کی گھنیری پلکیں
اپنے آغوش میں سایوں کو لئے بیٹھی تھیں
اور ان سایوں میں محسوس ہوا کرتا تھا
دل کا غم دل کی خلش دل کی تمنا ہر شے
ایک سایہ ہے لرزتا سایہ
اور مجھے دیکھنے پر اس کی گھنیری چپ چاپ
ایک سایہ ہی نظر آتی تھی
ایسا اک سایہ جو خاموش رہا کرتا ہو
اور اسے دیکھتے ہی میں بھی تو اک سایہ ہی بن جاتا تھا
سایہ خاموش رہا کرتا ہے
اور اک لرزش بیتاب کے ہونے پہ بھی خاموشی ہی
راہ میں میری عناں گیر ہوا کرتی تھی

اس کے بکھرے ہوئے گیسو سائے
لاج کی میٹھی جھجک بھی سایہ
اور بھی سائے تھے ہلکے گہرے
کالی آنکھوں کی گھنیری پلکیں
اپنے آغوش میں سایوں کو لئے بیٹھی تھیں
اور ان سایوں میں محسوس ہوا کرتا تھا
دل کا غم دل کی خلش دل کی تمنا ہر شے
ایک سایہ ہے لرزتا سایہ
اور مجھے دیکھنے پر اس کی گھنیری چپ چاپ
ایک سایہ ہی نظر آتی تھی
ایسا اک سایہ جو خاموش رہا کرتا ہو
اور اسے دیکھتے ہی میں بھی تو اک سایہ ہی بن جاتا تھا
سایہ خاموش رہا کرتا ہے
اور اک لرزش بیتاب کے ہونے پر بھی خاموشی ہی
راہ میں میری عناں گیر ہوا کرتی تھی
سیدھا جاتا ہوا رستہ بھی تو اک سایہ تھا
اس پہ آتے ہوئے جاتے ہوئے انسان تمام
دھندلے سائے تھے مگر سائے تھے
میں بھی جاتا ہوا آتا ہوا اک سایہ تھا
میں بھی اک سایہ تھا کس کا سایہ
کس کے قدموں سے لپٹتے ہوئے چپ چاپ چلا جاتا تھا
کہہ تو دوں دل میں یہ غم ناک خیال آتا ہے
سایہ خاموش رہا کرتا ہے

رات کے سائے ہی خاموش رہا کرتے ہیں
دن کے سائے تو کہا کرتے ہیں
بیتی لذت کی کہانی سے
اور مری مستی بھی اب دن کا ہی اک سایہ ہے
جس کے ایک کنارے کو شعاع سوزاں
اپنی شدت سے جلانے پہ مٹانے پہ تلی بیٹھی ہے
کاش آ جائے گھٹا چھائے گھٹا اور بن جائے
چڑھتے سورج کا زوال

چڑھتا سورج یہ بتا دیتا ہے
بڑھتے سائے ہیں کسی کے غماز
بہتے بہتے یہ کہے جاتے ہیں
رات کے جاگے ہوئے سوئے ہوئے اٹھے ہیں
دھوپ کھاتے ہوئے لٹکے لٹکے
جب کوئی پیرہن آویزاں
ایک جھونکے سے لرز اٹھتا ہے
ہم نوائی کو لرزتا ہوا سایہ بھی کہے جاتا ہے
بیتی لذت کی کہانی سب سے

بیتی لذت بھی مرے واسطے اک سایہ ہے
کسی سورج کے تلے آتے ہوئے بادل کا
سرسراتے ہوئے جھونکے کی طرح آتا ہوا جاتا ہوا
باتیں کرنے کو وہ اک پل بھی نہیں رکتا تھا
دن کا سایہ تھا اسے رات کی اک بات بھی معلوم نہ تھی
رات اک بات ہے صدیوں کی کئی صدیوں کی
اور اب دن ہے مجھے سائے نظر آتے ہیں
بولتے سائے نظر آتے ہیں
جانے پہچانے ہیں پھر بھی نئے مفہوم سمجھاتے ہیں سمجھاتے ہی چلے جاتے ہیں
پھر پلٹ آتے ہیں
جیسے میں جاتا تھا اور جا کے پلٹ آتا تھا
اسی رستے پہ جو اک سایہ تھا

راستہ آج بھی سایہ ہے مگر اک نیا سایہ ہے
راہ میں ایک مکان
وہ بھی سایہ ہے اداسی کا گھنیرا سنسان
راہ میں آتی ہوئی ہر مورت
ایک سایہ ہے چڑیل
حور کا اس میں کوئی عکس نظر آتا نہیں
دیکھتے ہی جسے میں کانپ اٹھا کرتا ہوں
آنکھوں میں خون اتر آتا ہے
سامنے دھند سی چھا جاتی ہے
دل دھڑکتا ہی چلا جاتا ہے
اور میں دیکھتا ہوں
سائے ملتے ہوئے گھلتے ہوئے کچھ بھوت سے بن جاتے ہیں
ہنہناتے ہوئے ہنستے ہیں پکار اٹھتے ہیں
دل میں کیا دھیان یہی ہے اب بھی
دل میں کیا دھیان یہی ہے اب بھی
سایہ خاموش رہا کرتا ہے
دیکھ ہم بولتے ہیں بولتے سائے ہیں تمام
ہم سے بچ تو کہاں جائے گا
اور میں کانپ اٹھا کرتا ہوں
اور وہ بولتے ہیں
کانپ اٹھا ہے لرزتا ہے یہ بزدل ناکام
بات کرتا ہی نہیں ہے کوئی
اب بھی شاید یہ سمجھتا ہے لرزتے دل میں
سایہ خاموش رہا کرتا ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse