دوئی کا تذکرہ توحید میں پایا نہیں جاتا
دوئی کا تذکرہ توحید میں پایا نہیں جاتا
جہاں میری رسائی ہے مرا سایا نہیں جاتا
مرے ٹوٹے ہوئے پائے طلب کا مجھ پہ احساں ہے
تمہارے در سے اٹھ کر اب کہیں جایا نہیں جاتا
محبت ہو تو جاتی ہے محبت کی نہیں جاتی
یہ شعلہ خود بھڑک اٹھتا ہے بھڑکایا نہیں جاتا
فقیری میں بھی مجھ کو مانگنے سے شرم آتی ہے
سوالی ہو کے مجھ سے ہاتھ پھیلاتا نہیں جاتا
چمن تم سے عبارت ہے بہاریں تم سے زندہ ہیں
تمہارے سامنے پھولوں سے مرجھایا نہیں جاتا
محبت کے لیے کچھ خاص دل مخصوص ہوتے ہیں
یہ وہ نغمہ ہے جو ہر ساز پر گایا نہیں جاتا
محبت اصل میں مخمورؔ وہ راز حقیقت ہے
سمجھ میں آ گیا ہے پھر بھی سمجھایا نہیں جاتا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |