دوانہ مجھ سا کب جیتا ہے کیوں تدبیر کرتے ہیں
دوانہ مجھ سا کب جیتا ہے کیوں تدبیر کرتے ہیں
کوئی دن چلنے پھرنے دیں عبث زنجیر کرتے ہیں
ہوائے گرم کے لگنے سے کب پتھر پگھلتا ہے
یہ نالے ان بتوں کے دل میں کب تاثیر کرتے ہیں
خدا کی بندگی کہئے اسے یا عشق معشوقی
یہ نسبت ایک ہے سو سو طرح تعبیر کرتے ہیں
دوانے ہیں سیانے چھوڑ دو تم نقش کو ان کے
پرائے گھر کی پریوں کے تئیں تسخیر کرتے ہیں
نگہ کرنے میں ان کے کام ہوتا ہے تمام اس کا
یقیںؔ کے حق میں یہ خوباں بہت تقصیر کرتے ہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |