دور نگاہ ساقی مستانہ ایک ہے
دور نگاہ ساقی مستانہ ایک ہے
پیمانے دو ہیں گردش پیمانہ ایک ہے
پیتا ہوں گھونٹ گھونٹ میں سانسوں کے ساتھ ساتھ
ساقی کا اور عمر کا پیمانہ ایک ہے
جس اشک میں ہو اشک ندامت وہی ہے اشک
موتی بہت ہیں گوہر یک دانہ ایک ہے
کثرت کی شان اور ہے وحدت کا رنگ اور
آباد ہے جو ایک تو ویرانہ ایک ہے
تفریق حسن شمع و گل میں ذرا نہیں
سوز و گداز بلبل و پروانہ ایک ہے
جب سن لیا فراق کا قصہ تو کہہ دیا
مجنوں کا اور آپ کا افسانہ ایک ہے
تم کو اگر ہے اپنی دل آرائیوں پہ ناز
کیفیؔ بھی اپنے نام کا مستانہ ایک ہے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |