دور کا نشانہ

319641دور کا نشانہچودھری محمد علی ردولوی

لالہ بنسی دھر تھے تو ذات کے بنئے، اور وہ بھی کشور دھن جو بنیوں میں اونچی ذات نہیں سمجھی جاتی ہے۔ مگر اپنے اندازِ شرافت سے ہیموں بقال، ٹوڈرمل مجار گو، سب کی یاد تازہ کردیتے تھے۔ گھر کے اندر بیٹھ کر جو پوجاپاٹ کرلیتے ہوں مگر باہر آزاد خیال، آزادہ رو مشہور تھے۔ آج کل کی آزادہ روی نہیں کہ باتیں کرنے میں بدتمیزی تمغہ خودداری سمجھا جائے اور کھلم کھلا ہرچیز کھانا پینا نئی روشنی کی پہچان ٹھہرے۔

حسن اتفاق سے حسن پرست بھی واقع ہوئے تھے۔ اس لیے لکھنو کے چوک اور شہر کے پچھمی حصے سے جہاں قدیم کلچر کے نام لیوا نوابین رہتے ہیں زیادہ واقف تھے۔ لکھ پتی مشہور تھے، گمرمیں مہاجنی، عدالتِ دیوانی سے خریدی ہوئی زمینداری سب ہی کچھ تھا مگر صحبت کے یقیناً ایسے تھے کہ باوجود مصروفیت کے ان جلسوں کے لیے وقت نکال لیتے تھے۔ چوک بھر کی خبر رکھتے تھے۔ جہاں کہیں جلسہ ہوا یا پرائیویٹ مجرا ہوا، وہاں پہنچ ہی جاتے تھے اور رکھ رکھاؤ ایسا تھا کہ ان جلسوں میں حاشیہ نشین ہوکر نہیں بیٹھتے تھے بلکہ مسند کا کونا دباکر بیٹھنے والوں میں شمار ہوتا تھا۔ جہاں کہیں اربابِ نشاط کے انتخاب کا سوال پیش ہوتا تھا وہاں ان کی رائے بہت قیمتی سمجھی جاتی تھی۔ اور ایسے اہم معاملات میں جو خوش قسمت ان کامشورہ حاصل کرسکتا، وہ مطمئن ہوجاتا تھا کہ صورت، دن، سن اور فن کے لحاظ سے اب کوئی کسرنہیں رہ گئی۔

آدمی منکسر مزاج اور خدمت کرنے کا جذبہ رکھتے تھے، مگر جہاں سے دل کے معاملات شروع ہوتے تھے وہاں سے ان کی خودداری ان کو اجازت نہیں دیتی تھی کہ دوسرے کے معاملات سے واسطہ رکھیں۔ تجربے نے ان کو بتادیا تھا کہ چاہے جتنا بڑا دوست ہو یا کتنا ہی دولت مند ملاقاتی ہو اگر ان پرائیویٹ معاملات میں یہ کسی کی مدد کریں گے تو ذلیل ہوجائیں گے۔ میرے پڑھنے والے کہتے ہوں گے کہ لکھنے والا سٹھیا گیا ہے۔ نہ معلوم کہاں کی دقیانوسی بداخلاقیوں اور بدتہذیبیوں کو پیش کر رہا ہے اور یہ بھی خیال نہیں کرتا کہ نوجوان لوگ پڑھ کر بے راہ ہوجائیں گے۔ چوک اور چوک بازاروں کا ذکر قانوناً ممنوع ہوجانا چاہیے۔ میں عرض کروں گا کہ کہیں ایسا کیجیے گا بھی نہیں، نہیں تو نہ معلوم کتنے ریسٹوران، کتنے ہوٹل، کتنے کافی ہاؤسز، ملک کارنرس پر قفل پڑجائیں گے اور نوجوانوں کو جو سبق فطرت پڑھاچکی ہے وہ تو بھولنے سے رہے لیکن زیب النسا کی طرح چلا اٹھیں گے کہ،

پاکبازیٔ من باعث گناہِ من است

جس زمانے کی باتیں کر رہا ہوں اس وقت عید اور دوسرے خوشی کے موقعوں پر باضابطہ محفلیں ہوتی تھیں جن میں بچے، بوڑھے، جوان سب باضابطہ شریک ہونا اپنا فرض سمجھتے تھے۔ ہر ایاز اپنی قدر پہچان کر برتاؤ کرتا تھا۔ کوئی خالی سم پر گردن ہلادیتا تھا۔ کوئی ’’آں‘‘ بھی کہہ دیتا تھا۔ کوئی خالی واہ کرنا اپنا منصب سمجھتا تھا، کوئی موسیقی کے نکات بیان کردیتا تھا اور بزرگِ محفل خالی شگفتہ مزاجی چہرے سے ظاہر کرتا تھا اور ان ہی مواقع پر بعض نوجوانوں کی نگاہوں کاجائزہ لیتے ہوئے زبانِ حال سے کہتا تھا،

اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبانِ عقل
لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑے

لالہ بنسی دھر کے ایسے لوگ آرٹسٹ سے تہذیب کے ساتھ باتیں کرکے اس کا دل بھی بڑھاتے تھے۔ لیجیے صاحب، سارنگی پر لہرا شرو ع ہوا۔ یہ ناچ کی تصریحیں کرتے جاتے ہیں کہ سری کرشن کی لیلا ہے۔ سری کرشن جی بچپن میں گیند کھیل رہے تھے۔ گیند سمندر میں جاگرا۔ ناگ دیو نے منہ میں لے لیا۔ سری کرشن جی نے اس کو پھانس لیا ہے۔ سمندر میں جاکر اس کے منہ سے گیند لارہے ہیں۔ ناچنے والی نے بایاں ہاتھ کاندھے کی سیدھ پر پورا لانبا کیا۔ دوسرا ہاتھ بھی کاندھے کی سیدھ پر رہا۔ مگر کہیں سے خم ہوکر پنجا سینے کے سامنے آگیا۔ بائیں ہاتھ کے پنجے نے سانپ کا پھن ثابت کیا ہے، داہنے ہاتھ کی انگلیوں نے ٹھمکیاں دے کر یہ ظاہر کیا کہ جب سانپ پھنس گیا تو سری کرشن جی نے یوں ٹھمکیاں بتائیں۔ ناچنے والی پیش درپیش چال سے بتارہی ہے کہ سانپ کی کنڈلیوں پر چڑھ کر سری کرشن یوں گیند سمندر سے لائے تھے۔ ہاتھ کا پنجا ماتھے کے سامنے آگیا۔ کلائی ماتھے سے چھوگئی۔ انگلیاں اوپر کو اٹھی رہیں، ہتھیلی محفل کی طرف رہی۔ یہ کرشن جی کامکٹ ہوگیا۔

اب مہادیو جی کا ناچ شروع ہوا۔ تیزی سے گھوم گھوم کر چاروں ہاتھوں سے دنیا بنارہے ہیں۔ لالہ بنسی دھر اس طرح ارتھ بتاتے ہیں کہ ہر توڑے ہر پلٹے کے معنی آئینہ ہوتے جاتے ہیں۔ اے لیجیے پاربتی کے ناز و انداز شروع ہوئے، ہر پہلو سے اپنے کو بچاتی ہیں،

وہ کیا کرے کہ محبت کا مقتضی ہے یہی
و گر نہ فائدہ اس کو مرے ستانے سے

لے کی نزاکتوں، پرن کی مشکل، جگہوں کی داد الگ دیتے چلے جاتے ہیں کہ سننے والوں کا لطف دوگنا ہوتا جاتا ہے۔ لیجیے صاحب، اس کے بعد بھاؤ شروع ہوئے، وہ حنائی ناخون، ہونٹوں کی سرخی اور آنکھوں کے لال ڈوروں کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ یہ مہجور کے خونینِ دل کا پتہ دیتے ہیں کہ خوشی کی خبریں بھی ہوں، رنج میں لہو کے آنسو رلاتی ہیں،

اپنی بپتا میں کاسے کہوں
تمرے کارن جو دکھ پاوا

کے معنی اب آئینہ ہوگیے۔ اس نے انگوٹھے کی آرسی دیکھی، زرد دوپٹے کا آنچل ہاتھ پر لیا کہ رنگ ایسا ہوگیا ہے۔ کلائی سے نیچے کو ادھر ادھر الٹے پلٹے دیے کہ رات کروٹیں بدلتے کٹی ہے۔ پچھتاوے کے انداز سے داہنے ہاتھ کی ہتھیلی پر ٹھڈی جمائی۔ اس ہاتھ کی ہتھیلی کہنی کے نیچے رکھ کر خیالی زانو قائم کیا۔ انھوں نے انترے کے معنی ہویدا کردیے کہ،

’’کدر پیا تمری کھتا (خطا) ناہیں
مورا کیا مورے آگے آوا‘‘

یوں ثابت کرتے ہیں۔ خیال کو اور چوکھا بنانے کے لیے موقع کا شعر بھی پڑھ دیا۔

ذرااٹھاؤ تو نظر اداس کیوں ہو اس قدر
یہ خشک لب، پہ چشم تر، یہ کیا نصیبِ دشمناں

یہ حصہ تولالہ بنسی دھر کا ہوا۔ اسی طرح بڑے چھوٹے صدر نشین، حاشیہ نشین، صفِ نعل والے سب مل کر کلچر کا معیار مضبوط کرتے ہیں، یہ نہیں کہ ہر موقع دعوتِ پردہ دری دے اور بے پردگی خلوت و جلوت کا فرق مٹادے۔ یہ تو باضابطہ صحبتوں کا حال ہوا۔ اب لالہ بنسی دھر کی پرائیویٹ تفریحوں کا حال سنیے۔ دن کو بڑا چوکور زمرد ہاتھ میں پہنے رہتے تھے۔ شام کو جب سیر کے لیے نکلتے تھے تو انیس بیس کیرٹ کا ہیرا انگلی میں اضافہ ہوتا تھا۔ گلے میں سونے کی دو موٹی موٹی لڑیں ہوتی تھیں۔ عطر کے معاملے میں ذری ٹکسالی گلاب کاقیمتی عطر ملتے تھے۔ جس کی خوشبو سے نازک مزاجوں کو چھینکیں آنے لگتی تھیں۔ اتنی تمیزداری ضرور تھی کہ خس کاعطر صرف گرمیوں ہی میں لگاتے تھے، مگر اس کے آگے نفاست کا لحاظ کم رہ جاتا تھا۔ مثلاً کیوڑے کا عطر جو صرف آبدار خانے اور بھنڈی خانے میں کام آتا ہے سر کے تیل میں ڈال لیتے تھے۔

زنانہ مردانہ عطروں میں فرق نہیں کرتے تھے۔ پھولوں کے ہلکے عطر جیسے چنبیلی، جاڑوں میں بھی لگا لیتے تھے۔ جاڑوں کے عطریات مصالحہ والے جیسے حنا، شمامتہ العنبر گرمیوں میں استعمال کرجاتے تھے۔ مجموعوں کی نزاکتوں کا خیر کون ذکر، جنھیں مختلف عطروں کا خیال ہو اور پھر بھی تمیز نہ ہوسکے کہ بھینی بھینی ہلکی ہلکی خوشبو جنت سے آئی یا اسی دنیا میں پیدا ہوئی۔ جب بے فصل کی لپٹیں آتی تھیں تو نفیس مزاج کہہ اٹھتے تھے کہ ’’بوئے کچوری می آید‘‘ مہاجن آدمی تھے اس لیے دل کے معاملات میں بھی حدود کے باہر پاؤں نہیں پڑتا تھا۔ ایک دن بے تکلفی میں کہنے لگے کہ سال میں ہم سب سے پہلے تو وہ پونچی نکال لیتے ہیں جو کاروبار میں لگائی تھی۔ اس کے بعد خانہ داری کے اخراجات الگ کرلیتے ہیں۔ اس کے بعد منافع میں سے جس قدر مناسب ہو ا پونجی میں اضافہ کرتے ہیں۔ سب کے بعد کچھ روپیہ اپنے دل کی خوشی کے لیے علیحدہ کرلیتے ہیں۔ یہ روپیہ ہم بے دھڑک صرف کرتے ہیں، اگر کوئی گومتی کے کنارے بیٹھ کر ہمارے ساتھ روپیہ پانی میں پھینکے اور یہ کھیل ہم کو پسند آجائے تو ہم اس میں بھی مقابلہ کرنے کو تیار ہیں لیکن جب دل کی خوشی والا مال ختم ہوجائے گا تو ہم اٹھ کھڑے ہوں گے۔ پھر دل اور دل کے افکار کو خداحافظ۔

ایک دادرا ہے ’’دل ایکے سے لاگے ہجاروں (ہزاروں ) کھڑے‘‘ لالہ آدمی وسیع الاخلاق ہے اس لیے گو منظورِ نظر ایک ہی رہتی تھی۔ مگر خیر صلاّح سب کی پوچھ آتے ہیں۔ شام سے لے کر دس بجے تک،

’’رات ہی بھر گور ہے لیکن گلوں میں ہم رہے‘‘

کا آوازہ بلند کیا کرتے تھے۔ کسی سے تکلف اور تہذیب کی ملاقات ہوتی تھی۔ کسی سے خلوص اور بے تکلفی تھی۔ بعض سے مذاق اور کنایوں کی چوٹیں چلتی تھیں۔ کہیں کہیں ایک آدھ منچلی ایسی بھی ہوتی تھی جہاں غالب مرحوم یاد آجاتے تھے،

دھول دھپا اس سراپا ناز کا شیوہ نہیں
ہم ہی کر بیٹھے تھے غالب پیش دستی ایک دن

لالہ بنسی دھر تھوڑے سے فلاسفر بھی تھے۔ جب دوستانِ ناصح ان کے پاؤں کے سنیچر اتارنے پر معترض ہوکر کہتے تھے کہ ’’یک درگیر و محکم گیر‘‘ خود کو پانی سے پتلا، ہوا سے ہلکا نہ کریں اور ہر جگہ کی حاضر باشی سے باز آئیں تو یہ جواب دیتے تھے کہ جنسی تقاضے الگ چیز ہیں، اور صنفِ نازک سے ہم کلامی اور ہم نشینی کی خواہش دوسری چیز ہے۔ لیکن جن ممالک میں پردہ ہوتا ہے وہاں آدمی طے نہیں کرسکتا کہ کس قدر تقاضا آدمی میں پہلی بات کا ہے اور کس قدر دوسری بات کا اور انسان غلطی سے دوسرے تقاضے کو بھی پہلا تقاضہ ہی سمجھا کرتا ہے۔ اگر ملک میں پردہ نہ ہو تو دوسرا تقاضہ پورا ہوا کرے اور پہلا اپنے حدود سے باہر نہ جائے، بات پتے کی کہتے تھے مگر نصیحت کرنے والوں کی عقل ان باریکیوں تک کہاں پہنچتی ہے،

وہ بھلا کس کی بات مانے ہیں
ناصح صاحب تو کچھ دوانے ہیں

ناظرین لالہ بنسی دھر کی آوارہ گردی سے ان کی آبرو ریزی ہوئی۔ اور ہمارے ناصح کی ’’ح‘‘ گرگئی تو کوئی ہرج نہیں۔ مطلب دونوں حالتوں میں نکل آیا۔

ایک دوست کے یہاں کوئی چھوٹی سی تقریب تھی۔ ناظرات لالہ بنسی دھر کے متعلق نہ ہوتی تو کس کے ہوتی۔ سب سے بہتر گانے والی، سب سے زیادہ شوح طرار انتخاب کی گئی۔ جلسہ اور دعوت صرف ایک دن کی تھی۔ رات کا مجرا عام تھا۔ فرصت ہوئی۔ سازندے سلام کرکے باہر چلے گیے۔ نثر میں تغز ل ہونے لگا۔ بڑی ستھری صحبت، بڑے مزے کی باتیں ہو رہی تھیں کہ ایک سازندہ پریشان کمرے میں گھس آیا اور کہنے لگا کہ ایک کانسٹیبل نے ہم کو خداواسطے کو ایک تھپڑ مارا ہے۔ عورت کی موجودگی کی وجہ سے جتنے تھے سب کے دل میں صرف ہمدردی ہی نہیں بلکہ ایک طرح جوش پیدا ہوا مگر پڑھے لکھوں کا جلسہ تھا۔ پہلا جوش طرفتہ العین میں ختم ہوگیا۔ قانونی پہلو سب کے دل میں آیا کہ بغیر ہم لوگوں کانام آئے کیا چارہ جوئی کی جاسکتی ہے۔

سب نے صاحب تقریب کا منہ دیکھا۔ رنڈی نے لالہ بنسی دھر کی طرف نظر کی۔ زبانِ حال سے کہنے لگی، ’’ہمارا آدمی ذلیل کیا گیا ہے۔ اس کی تلافی کیا کی جائے گی۔ ہم صاحب تقریب کو کیا جانیں، ہم تو تمہارے بلائے سے یہاں آئے تھے۔ ہر چیز کے ذمہ دار تم ہو۔ اٹھو اور کانسٹیبل کو پھانسی پر چڑھادو۔‘‘ لالہ بنسی دھر نے سرنیچا کیا۔ ایک ذرا سے غور کے بعد نہایت سنجیدگی سے بہت نرم اور معاملہ فہمی کے لہجے میں سازندے سے مخاطب ہوئے۔

لالہ بنسی دھر: ’’جاؤ اس کانسٹیبل کے نام کا پتا لگاآؤ۔‘‘

رنڈی: ’’آپ ہیں اچھے خاصے الو کے پٹھے۔ ہمارا تو آدمی مارا گیا۔ ہم ذلیل ہوئے اور تم بجائے اٹھ کر وہاں جانے کے نام کا پتا لگاتے ہو۔‘‘ گردن کو نیم حقارت، نیم طنز کا جھٹکا دے کر ’’پتا۔ آ۔ آ۔ لگاآؤ۔‘‘

لالہ بنسی دھر: بی بی غصہ نہ کرو۔ ہماری بات سنو۔ غصے سے کام بگڑتے ہیں، سنورتے نہیں۔ ہمارے ایک برادر ہیں، انھوں نے فلاں دیہاتی رئیس کو قرضہ دیا۔ ان کا نام تم نے بھی سنا ہوگا۔ ان کی مونچھوں سے چنگاریاں اڑتی تھیں۔ بڑی دھاک بیٹھی تھی۔ پولس ان کے دروازے جاتے ڈرتی تھی۔ نہ معلوم کتنے مقدمے فوجداری کے ان پر چلے مگر روپیہ کازور اور ان کا خوف ایسا تھا سینکڑوں بدمعاش ان کی نگاہ دیکھتے تھے، جو چاہا کر گزرے، جس کو چاہا پٹوادیا۔ ہمارے برادر ان کے یہاں قرقی لے کر گیے۔ انھوں نے قرق امین کی خبر نقد سے لی اور ہمارے برادر کو صرف پٹوایا ہی نہیں، بلکہ بری طرح ذلیل کیا مگر ہمارے برادر نے غصہ بالکل نہیں کیابلکہ اور زیادہ تابعدار ہوگیے۔ اور بے دھڑک قرضہ اس طرح دینا شروع کردیا جیسے کچھ ہوا ہی نہ تھا۔ آج اس کے گھر کی نیو کا ٹکا کھدوالیا۔ رئیس صاحب آج کوڑی کے نہیں، مارے مارے پھرتے ہیں۔ یہ کانسٹیبل ٹکے کا آدمی کون چیز ہے، بس نام معلوم ہوجائے ہم کل ہی سے دوستی کرکے سالے کو قرضہ دینا شروع کردیں گے۔ تم اطمینان رکھو۔


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.