دوست جب دل سا آشنا ہی نہیں

دوست جب دل سا آشنا ہی نہیں
by عیش دہلوی

دوست جب دل سا آشنا ہی نہیں
اب ہمیں غیر کا گلہ ہی نہیں

جس کا دل درد آشنا ہی نہیں
اس کے جینے کا کچھ مزا ہی نہیں

ایک دم ہم سے وہ جدا ہی نہیں
گر جدا ہو تو وہ خدا ہی نہیں

آشنائی پہ اس کی مت جانا
لے کے دل پھر وہ آشنا ہی نہیں

خاک چھانی جہان کی لیکن
دل گم گشتہ کا پتا ہی نہیں

لاکھ معشوق ہیں جہاں میں مگر
آہ وہ ناز وہ ادا ہی نہیں

سعی بے فائدہ ہے چارہ گرو
مرض عشق کی دوا ہی نہیں

درد دل ان سے ہم کہا ہی کیے
پر انہوں نے کبھی سنا ہی نہیں

سر پھراتا ہے کیوں عبث ناصح
میرا کہنے میں دل رہا ہی نہیں

اب وہ آئے تو آئیں کیا حاصل
طاقت عرض مدعا ہی نہیں

میں تو کیا گوش چرخ نے بھی عیشؔ
ایسا بیداد گر سنا ہی نہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse