دوست غم خواری میں میری سعی فرماویں گے کیا
دوست غم خواری میں میری سعی فرماویں گے کیا
زخم کے بھرنے تلک ناخن نہ بڑھ جائیں گے کیا
بے نیازی حد سے گزری بندہ پرور، کب تلک
ہم کہیں گے حالِ دل، اور آپ فرمائیں گے ‘کیا’؟
حضرتِ ناصح گر آئیں، دیدہ و دل فرشِ راہ
کوئی مجھ کو یہ تو سمجھا دو کہ سمجھائیں گے کیا؟
آج واں تیغ و کفن باندھے ہوئے جاتا ہوں میں
عذر میرے قتل کرنے میں وہ اب لائیں گے کیا
گر کیا ناصح نے ہم کو قید، اچھا یوں سہی
یہ جنونِ عشق کے انداز چھٹ جائیں گے کیا
خانہ زادِ زلف ہیں، زنجیر سے بھاگیں گے کیوں
ہیں گرفتارِ وفا، زنداں سے گھبرائیں گے کیا
ہے اب اس معمورے میں قحطِ غمِ الفت اسدؔ
ہم نے یہ مانا کہ دلّی میں رہیں کھائیں گے کیا؟
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |